بائیڈن نےبغیر پرواہ امریکی انخلا کا فیصلہ کیا،زلمے

سابق نمائندہ خصوصی برائے پاکستان اور افغانستان زلمے خلیل زاد کا کہنا ہے کہ صدر جو بائیڈن نے شرائط اور نتیجے کی پرواہ کیے بغیر صرف تاریخ دیکھ کر افغانستان سے امریکی انخلا کا فیصلہ کیا۔
امریکی ٹی وی کو دیئے گئے انٹرویو میں افغانستان کیلئے امریکا کے سابق نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے کہا ہے کہ امریکی صدر بائیڈن نے شرائط کی پرواہ کیے بغیر کیلنڈر پر مبنی انخلا کا فیصلہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ افغان حکومت نے جاری جنگ کے اثرات کا غلط اندازہ لگایا۔ اشرف غنی سیاسی تصفیے کے بارے میں سنجیدہ نہیں تھے۔ اشرف غنی حکومت نے سیاسی تصفیے کی بجائے اسٹیٹس کو کو ترجیح دی تھی۔ افغان حکومت اور طالبان کے مابین سیاسی انتظام توقعات کے مطابق آگے نہیں بڑھا۔ اس کی وجوہات بہت پیچیدہ ہیں اور میں آنے والے دنوں اور ہفتوں میں اپنے خیالات شیئر کروں گا۔
سابق نمائندہ خصوصی کا یہ بھی کہنا تھا کہ میں ان لوگوں کا احترام کرتا ہوں جو کہتے ہیں کہ ہمیں وہاں موجود حکومت کے بغیر طالبان کے ساتھ مذاکرات نہیں کرنے چاہیے تھے، لیکن مجھے نہیں معلوم کہ طالبان کو اس بات پر راضی کرنے کے لیے مزید کتنی لڑائی کرنی پڑتی۔
واضح رہے کہ افغانستان میں پیدا ہونے والے 70 سالہ امریکی سفارت کار زلمے خلیل زاد سابق صدر جارج ڈبلیو بش کے قریبی ساتھی کے طور پر سینیئر عہدوں پر فائز رہے۔ وہ کابل اور بغداد کے علاوہ اقوام متحدہ میں بھی امریکی سفیر بنے۔
سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان میں امریکا کی طویل ترین جنگ ختم کرنے کی خواہش ظاہر کی تو وہ خلیل زاد کو واپس لائے، جنہوں نے کابل میں امریکی حمایت یافتہ حکومت کو شامل کیے بغیر طالبان کے ساتھ مذاکرات کی قیادت کی۔
مذاکرات کے نتیجے میں فروری 2020 کا معاہدہ ہوا، جس میں اگلے سال (2021) میں امریکی افواج کے انخلا کی بات کی گئی تھی۔
افغانستان کی زبان اور رسم و رواج سے واقف زلمے خلیل زاد ایک غیر معمولی امریکی سفارت کار تھے، جو طالبان رہنماؤں کے ساتھ خوشگوار تعلقات قائم کرنے کے قابل تھے۔