ماں تم سے بوآتی ہے،والدین کونکالتےوقت اولاد کی توجیہہ
والدین بچوں کو پالنے میں اپنا سکھ چین، آرام حتیٰ کہ اپنی چھوٹی بڑی خواہشات بھی قربان کردیتے ہیں اور اس وقت ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا کہ اولاد بڑی ہوجانے کے بعد انہیں اپنے دل اور گھر دونوں سے نکال بھی سکتی ہے۔ ایسا ہی تجربہ کرنے والے کچھ بند نصیبوں میں لاہور کا ایک ضعیف اور معذور جوڑا بھی شامل ہے جو ایک دو نہیں بلکہ پورے آٹھ جوان بچوں کے ہوتے ہوئے ان کے ساتھ گھر میں رہنے کے بجائے چھوٹی سی ایک جھگی میں بے یار و مددگار پڑا ہے۔
لاہور میں دریائے راوی کے ایک پل کے پاس ایک ٹانگ سے معذور 70 سالہ خضر حیات بمشکل حرکت کر پاتی اپنی شریک حیات زبیدہ کے ساتھ ایک جھگی میں کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ان دونوں کی سگی اولاد نے تو انہیں گھر سے بیدخل کردیا لیکن اب ان دونوں کے پاس اگر ان کے کوئی سگے باقی بچے ہیں تو وہ غربت اور بیماریاں ہیں جو مستقل ان کی دہلیز سے لگے ان کا بڑی وفاداری سے ساتھ نبھا رہے ہیں۔ غربت اور بیماری نے دونوں کو نہیں چھوڑا ہے ہاں کچھ قیمت ضرور وصول کی ہے۔ بیماری خضر حیات کی ایک ٹانگ نگل گئی جبکہ شوگر کے مرض نے زبیدہ کو بھی اٹھنے بیٹھنے سے معذور کر دیا ہے۔
ماں ایک ایسی ہستی ہے جس کے شیر خوار بچے اگر شدید سردیوں میں بھی کبھی بستر گیلا کردیں تو وہ انہیں اپنی جگہ لٹا کر خود اس گیلی جگہ سو جاتی ہے تاکہ اس کے لاڈلے یا لاڈلی کو کہیں ٹھنڈ محسوس نہ ہو اور وہ انہیں اپنی گرم آغوش سے بھی کبھی جدا نہیں کرتی لیکن گھر سے نکال دیے جانے کی ایک وجہ جو بوڑھی ماں نے بتائی وہ بڑی حیران کردینے والی اور افسوس ناک تھی۔ زبیدہ نےبتایا اس کے بچے اس سے کہتے کہ تمہارے پاس سے بو آتی ہے۔ خضر حیات کا کہنا تھا کہ گھر سے نکالتے وقت بچوں نے جو ان لوگوں سے آخری الفاظ کہے وہ یہ تھے کہ ان کے لیے ان کے ماں باپ مرگئے۔ ان کے بچوں اپنے قول کے پکے نکلے کیوں کہ اس دن کے بعد ان میں سے کسی نے آکر اپنے والدین کی شکل نہیں دیکھی۔
خضر حیات نے بتایا کہ ان کے بچے ان سے کہتے کہ ہمارے پاس رہنا ہے تو ہمیں پیسے دو۔ اپنے بچوں کو پال پوس کر بڑا کرنے پر سب کچھ صرف کردینے والے اس بوڑھے جوڑے کے پاس کوئی پیسہ بچا بھی نہیں تھا جو وہ گھر میں رہنے کے بدلے میں اپنے بچوں کو دے پاتے۔ وہ یہ شرط پوری نہ کرسکے اور انہیں گھر سے بیدخل ہونا پڑا۔
انہوں نے اپنی اس ٹوٹی پھوٹی جھونپڑی میں ہی چولہا، چائے بنانے کے برتن اور کچھ پیالیاں رکھ لی ہیں اور خود چائے بناکر بیچتے ہیں جس سے دن بھر میں ان دونوں کے لیے تھوڑا بہت کھانا کھانے کے لیے کچھ پیسے آجاتے ہیں جس سے شاید وہ لوگ سیر تو نہیں ہوپاتے لیکن کم از کم بھوک کے ہاتھوں مرنے سے بچے ہوئے ہیں۔
زندگی کا مارا یہ جوڑا بے بسی کی ایک تصویر دکھائی دیتا ہے جس میں ممتا سے بھری ماں اور جوان کاندھوں کے منتظر باپ کی آنکھیں دہلیز کی جانب اٹھی رہتی ہیں یہ جاننے کے باوجود کہ اب وہاں کوئی نہیں آئے گا۔