تیراہ آپریشن:کوکی خیل قبیلہ واپسی اور شناخت کامنتظر

فوج اورشدت پسندوں کی لڑائی نے انہیں غاروں میں پہنچادیا

KukiKhel Rajgal IDPs living in caves decade after Tirah operation

تحریر : مینا گبینا

 

پاک افغان شاہراہ پر واقع ضلع خیبر سے تعلق رکھنے والی خواتین 8 برس گزر جانے کے باوجود اپنے گھروں کو نہ لوٹ سکیں۔ اگر آپ ان سے پوچھیں کہ وہ اپنے گھروں کو واپس جانا چاہتی ہیں تو وہ ایک سرد آہ بھر کر ان دنوں کو یاد کرکے ہاں میں سر ہلاتی ہیں اور گزرے دنوں کو اپنی آنکھوں میں پھر سے دیکھنے لگتی ہیں۔

غاروں کے درمیان زندگی کے قیمتی 8 سال گزارنے والی یہ خواتین اپنے بھیڑ بکریوں اور ان ہرے بھرے کھتیوں میں دوبارہ جانے اور بسنے کی خواہش مند تو ہیں، تاہم فی الحال ایسا ممکن نہیں۔ وہ پورا پورا دن ان غاروں کے درمیان بیٹھے بیٹھے گزارتی اور گزرے اچھے دنوں کو یاد کرتی ہیں۔

کوکی خیل قبیلہ مہربان کلے سے لے کر کرم ایجنسی تک کے علاقے میں آباد ہے۔ انھوں نے اپنا یہ علاقہ سنہ 2012 میں وہاں شدت پسندوں کے خلاف عسکری آپریشن کی وجہ سے چھوڑا تھا۔

کوکی خیل قبیلے کے سیکڑوں خاندان کی گھر بدری کا آغاز سال 2012 میں دہشت گردوں کے خلاف شروع ہونے والے فوجی آپریشن سے ہوا۔ اس وقت وادی راجگال دہشت گردوں کا گڑھ تھا اور علاقے میں فوج اور دہشت گردوں کے درمیان شدید جھڑپیں جاری تھیں۔

سابق فاٹا اور موجود خیبر پختونخوا کے اس ضلع خیبر میں بسنے والے کوکی خیل قبیلے کا تعلق آفریدی قبیلے  کی ذیلی شاخ سے ہے۔ خیبرپختونخوا کے دیگر قبیلوں کی طرح کوکی خیل قبیلہ بھی ایک طویل عرصے تک دہشت گردی، انتہا پسندی، نقل مکانی، علیحدگی اور کالے قانون فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن (ایف سی آر) سے نبرد آزما رہا۔ صرف یہ ہی نہیں بلکہ اس وقت کے سب سے بڑے خطرے کالعدم تحریک طالبان اور منگل باغ جیسی دہشت گرد تنظیم کے خلاف بھی اس قبیلے نے تیراہ میں طویل مزاحمت جاری رکھی۔

سال 2012 اور تیراہ آپریشن

سال 2012 میں شروع ہونے والے تیراہ آپریشن سے لوگوں کی نقل مکانی کا آغاز ہوا۔ جب ٹی ٹی پی کی جانب سے بڑی تعداد میں کوکی خیل قبیلے کے افراد کو دہشت گردی کا نشانہ بناتے ہوئے قتل کیا گیا۔ صورت حال گھمبیر ہونے پر سیکیورٹی حکام کی جانب سے کوکی خیل قبیلے کے سامنے 2 حل رکھے گئے، یا تو وہ یہ علاقہ چھوڑ جائیں یا پھر وہ صلح کرلیں۔ اب یہ ان پر منحصر تھا کہ وہ کس راستے کا انتخاب کرتے ہیں۔ اپنے اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے کوکی خیل قبیلے نے صلح کا امکان یکسر مسترد کردیا۔ ایک اندازے کے مطابق تقریباً 2000 خاندان یہاں سے ہجرت کرگئے۔

بعد ازاں سال 2013 سے سال 2017 تک جاری رہنے والے آپریشن کے دوران تقریباً 22 ہزار خاندانوں نے یہاں سے ہجرت کی۔ یہ تعداد اس وقت سامنے آئی جب عارضی نقل مکانی ( ٹی ڈی پیز) کرنے والوں کی جانب سے سیکڑوں افراد نے حقوق نہ ملنے پر احتجاج کیا۔ اس سے قبل عارضی نقل مکانی کرنے والوں کی حتمی تعداد واضح نہیں تھی۔ احتجاج کے زور پکڑنے پر حکومت کی جانب سے ٹی ڈی پیز کی رجسٹریشن کا اعلان کیا گیا، تاہم 2021 تک بھی صرف 1ہزار 400 افراد کی ہی رجسٹریشن ممکن ہوسکی، جنہیں رجسٹریشن کے بعد مقرر کردہ امداد دی گئی۔

حکومتی اعلانات اور دعوے ٹی ڈی پیز کے مسائل نہ حل کرسکے۔ متاثرین نے شکایت کرتے ہوئے کہا کہ نہ ہی ان کی رجسٹریشن کا عمل مکمل کیا جا رہا ہے اور نہ ہی ان لوگوں کو گھروں کو واپس جانے کی اجازت دی جا رہی ہے۔

اپنے گھروں کو واپسی ان کا سب سے بڑا مطالبہ ہے اور وہیں وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر 8 سال کے بعد بھی حکومت انھیں واپس نہیں بھیج سکتی تو پھر انھیں رجسٹر کر کے آئی ڈی پیز کو ملنے والی مراعات ہی دے دیں۔ ان کا یہ الزام بھی ہے کہ راجگل کے نواحی علاقوں کے قبیلے ان کی زمینوں پر قبضہ کر رہے ہیں اور ان کے اخروٹ کے درخت کاٹے جا رہے ہیں اور وہ اس مسئلے کا حل بھی چاہتے ہیں۔

ٹی ڈی پیز کی صورت میں زندگی گزارنے والے ان افراد کی جانب سے جب احتجاج کیا گیا تو اس وقت کے گورنر خیبر پختونخوا شوکت اللہ خان نے قبائلی جرگے کے عمائدین سے ملاقات میں اس بات کا دعویٰ کیا تھا کہ عارضی نقل مکانی کرنے والوں کو گھروں کی واپسی اب صرف چند روز کی دوری پر ہے، تاہم یہ چند روز پہلے مہینوں اور اب سالوں میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ اپنے گھروں کو چھوڑنے والوں کو اپنے گھر کا سکوں تو میسر نہ آسکا، تاہم اس دوران وہ علاقے دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں میں ضرور تبدیل ہوگئے۔ غور طلب بات یہ بھی ہے کہ اس تمام عرصے کے دوران تیراہ میں فوجی آپریشن جاری رہا۔ 2017 میں واپسی کا وعدہ کیا گیا جو پورا نہ ہوسکا۔ کوکی خیل قوم جمرود میں بھی آباد ہےاور تمام کوکی خیل قوم کے شناختی کارڈ پر جمرود کا پتہ ہے۔ حکومت نے ایڈرس کا بہانہ بنا کر پوری کوکی خیل قوم کو کسی بھی حکومتی امداد یا ازالے سے بھی محروم رکھا ہے۔

انھی افراد میں شامل شاندانہ بی بی نے سرد آہ بھرتے ہوئے کہا کہ ہم کیا کر سکتے تھے؟ ہم ہر طرف سے جنگ میں گھرے ہوئے تھے۔ ہمارے بچوں نے دستی بموں اور دیگر دہشت گردی کی کارروائیاں اپنی آنکھوں سے دیکھی ہیں۔ ہمارے مویشی اپنے گھر کا حصہ تھے، جنہیں ہمیں دہشت گردی اور آپریشن کی وجہ سے پیچھے چھوڑنا پڑا۔ ہمارے پاس مویشی اور بکریاں تھیں۔ ہمارے اپنے کھیت تھے اور ہم اپنی گزر بسر کا بندوبست خود کیا کرتے تھے، مگر افسوس وہ سب اچھے دن ہم پیچھے چھوڑ آئے۔

جمرود کی مسجد علی

افغانستان کے پہاڑوں سے نکلنے والے چشموں کا پانی پاکستان کے ضلع خیبر میں علی مسجد کے مقام پر پہاڑوں کے چھوٹے غاروں سے نکلتا ہے، اسی مناسبت سے اس جگہ کو غار اوبہ کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔

عارضی طور پر بے گھر ہونے والے کئی خاندانوں نے جمرود کی اس مسجدِ علی کے غاروں میں پناہ لی ہوئی ہے۔ مسجدِ علی اسلام آباد سے صرف 3 گھنٹے جب کہ پشاور سے تقریبا 20 منٹ کی مسافت پر واقع ہے۔ یو ایس ایڈ کی مالی امداد سے بننے والی سڑک نے لوگوں کو پہاڑیوں کے دامن میں قائم اس علاقے اور یہاں کھلنے والے چھوٹے سے بازار تک لوگوں کی رسائی ممکن بنا دی ہے۔

لوگوں کا کہنا تھا کیہ جو بچا کچھا سامان وہ اپنے ساتھ لے کر نکلے تھے وہ بھی کالعدم لشکر اسلامی کے دہشت گردوں نے ان سے چھین لیا تھا۔ منگل باغ جو اس وقت تیراہ میں دہشت کی علامت سمجھا جاتا تھا، اس کے دہشت گردوں سے ہم نے اپنی جانیں بچانے میں ہی عافیت جانی اور جانیں بچا کر نکل آئے۔ اس وقت ایسی بے سرو سامانی کا عالم  تھا کہ ہمارے پاس سر چھپانے کیلئے نہ کوئی چھت تھی نہ رہنے کیلئے کوئی زمین کا آسرا۔

حکومت کی جانب سے کیے گئے وعدوں کے برعکس ہمارے کسی کیمپ کا انتظام بھی نہیں کیا گیا تھا جہاں ہم عارضی سکونت ہی اختیار کرلیتے۔ کچھ افراد کے رشتے دار جمرود میں تھے، جنہوں نے ان کے گھروں میں پناہ لی۔ کچھ افراد ایسے بھی تھے جن کیے دیگر علاقوں میں دوسرے گھر واقع تھے تاہم اکثریت بے سروسامانی کی حالت میں تھے۔ جن کی زندگی غربت کی لکیر سے نیچے رہی۔ وہ کھانے پینے اور مویشیوں کی دیکھ بھال میں خود کفیل سے غریب تر ہوتے چلے گئے۔

سنہ 2010 میں کالعدم طالبان کے ہاتھوں کوکی خیل قبیلے کے 63 افراد کی ہلاکت پر اس وقت کے آرمی چیف  جنرل اشفاق پرویز کیانی نے کوکی خیل سے معافی مانگی تھی جب ان افراد کو تیراہ کے دور افتتادہ گاؤں سارہ ویلا میں نشانہ بنایا گیا تھا۔

ان لوگوں کی کہانی یہی ختم نہیں ہوتی، اس نقل مکانی اور گھروں سے بے گھر ہونے کے درمیان کئی افراد نے اپنے پیاروں کو بھی کھویا۔ ان میں سے کئی افراد آج تک یہ نہیں جان پائے کہ ان کے پیارے زندہ بھی ہیں یا نہیں۔ ایک عورت نے کہا کہ "یہاں اب پیچھے رہ جانے والوں میں بس ہم خواتین ہی بچی ہیں۔" ہمارے آدمی یا تو مارے گئے ہیں یا لاپتہ ہیں یا پھر دوسرے شہروں اور ممالک میں کام کی تلاش میں مگن ہیں۔ اسی دوران ایک خاتون نے قریب موجود 11 سالہ بیٹے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے مقامی زبان میں کہا کہ دی دا پلار ورک دے یعنی ( اس کا باپ مر چکا ہے )۔

میں سماجی کارکن نوشاد اور احسان گل کے ہمراہ اور ان کے تعاون سے مسجدِ علی اور وار منڈو میلے میں عارضی نقل مکانی کرنے والے 65 افراد سے ملی اور ان میں امدادی سامان تقسیم کیا۔اس افراد کا تعلق کوکی خیل راجگال سے قبیلے سے تھا۔ تاہم مجھے یہ دیکھ کر کافی حیرانی ہوئی کہ یہ امدادی سامان لینے والوں میں ایک بھی خاتون سامنے نہیں آئی۔ میرا مقصد خاص طور پر ان خواتین سے بات کرنا تھا جنہوں نے کوکی خیل مردوں کی طرح جنگ اور نقل مکانی کی دہشت کا سامنا کیا ہے لیکن ایسا ممکن نہ ہوسکا۔ میں چاہتی تھی کہ خصوصی طور پر ایسی خواتین سے بھی ملاقات کروں جنہوں نے کوکی خیل قبیلے کے مردوں کی طرح صرف نقل مکانی کا دکھ اور دہشت گردی کو اپنی آنکھوں سے ہی نہیں دیکھا بلکہ معاشرتی سطح پر بھی ان کے وجود کی حقیقت سے انکار کیا گیا، چاہئے وہ مظاہرہ ہو، تعلیم ہو، اپنے حقوق کیلئے بات کرنا ہو یا ظلم کے خلاف آواز بننا ہو۔

اس دوران میں نے خواتین سے ملاقات کی درخواست کی اور وہ مجھے علی مسجد لے گئے۔ انھوں نے مجھے بتایا کہ جہاں آج کل وہ رہائش پذیر ہیں، اس علاقے میں لڑکیوں کے لیے کوئی سرکاری اسکول نہیں تھا اور لڑکیوں کو پرائیوٹ اسکول میں تعلیم حاصل کرنا ہوتی تھی یا پھر ان کے لیے تعلیم کا کوئی انتظام نہیں تھا۔

میں نے دیکھا کہ کچھ خواتین ہینڈ پمپ سے پانی بھر رہی ہیں اور آپس میں بات چیت بھی کر رہی ہیں۔ انھوں نے مجھے بتایا کہ وہ پہاڑیوں میں موجود غاروں میں رہتی ہیں۔ ہر خاندان میں اوسطا 14 افراد ایک ساتھ رہائش پذیر ہیں۔ پچھلے 10 برس میں وہ اتنی رقم جمع کرسکتے تھے کہ کم از کم ایک جھونپڑی بنا لیتے لیکن غیر یقینی صورت حال کی وجہ سے یہ فیصلہ نہیں لیا گیا۔ انھیں کسی بھی وقت یہ علاقہ خالی کرنے کا کہا جاسکتا تھا۔

Tirah IDP children in Jamrud with Meena Gabeena

خوازہ بی بی کا کہنا تھا کہ ہم 14 سے 20 افراد ایک کمرے میں سوتے ہیں۔ ہمارے رشتہ دار ہم پر بہت مہربان رہے ہیں لیکن لوگ آپ کو ایک مہینے کے لیے ، ایک سال کے لیے ، یہاں تک کہ 3 سال تک گھر دے سکتے ہیں لیکن ہم ذاتی طور پر اب 10 سالوں تک اپنے رشتہ داروں پر بوجھ بننا اچھا نہیں سمجھتے۔

وزیراعظم عمران خان نے ایک ویڈیو پیغام کا ذکر کرتے ہوئے سی ایل سی پی ویریفیکیشن کے سینیر ممبر جان باز کا کہنا تھا کہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ یہ لوگ اپنے گھروں کو واپس نہیں جا سکتے اگر یہ لوگ واپس بھی چلے گئے تو دہشت گردی کی جنگ میں ان کے گھر اس قدر تباہ ہوچکے ہیں کہ وہ اپنی مدد آپ کے تحت انہیں تعمیر نہیں کرسکتے ہیں اور انہیں اس کیلئے مدد درکار ہوگی۔

سنہ 2013 سے 2017 تک سیکڑوں قانون نافذ کرنے والے اہلکار اس جنگ میں مارے گئے، جب کہ بعد پاک فضائیہ بھی اس جنگی آپریشن میں شامل ہوئی۔ جس کے بعد فضائیہ کے طیاروں سے گرنے والا ہر بم کسی نہ کسی گھر، دکان، درخت یا کھیت کیلئے تباہی کا پیغام لاتا تھا۔ آج تیراہ راجگل کے علاقے میں کوئی گھر اپنی اصل حالت میں نہیں ہے۔

وہ یہ تو کہتے ہیں کہ امن لوٹ آیا مگر وہ ہمارے ٹوٹے گھروں میں واپسی کا تذکرہ نہیں کرتے اور نہ ہی وہ اس امداد کا ذکر کرتے ہیں کہ جس سے ہم اپنے اجڑے آشیانوں کو دوبارہ بسا سکیں۔ اگست 2021 میں صرف 40 خاندانوں کو واپس جانے کی اجازت دی گئی تھی۔ انہیں انتظامیہ کی طرف سے صرف خیمے اور باورچی خانے کے برتن دیئے گئے لیکن رقم  یا بنیادی خوراک نہیں ملی۔ آئی ڈی پیز کو بتایا گیا ہے کہ 26 ستمبر تک مزید 95 خاندان واپس آجائیں گے۔

کوکی خیل قبیلے کی ضروریات کیا؟ سرکاری بیان بمقابلہ زمینی حقائق

جب میں نے ان سے ان کی ضروریات کا پوچھا تو انہوں نے سادہ سی چیزوں کا ذکر کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ انہیں عارضی طور پر بے گھر افراد کے طور پر پہچانا جائے کیونکہ وہ وہی ہیں۔

انہیں بنیادی ضروریات کی اشیا فراہم کی جائیں، جس میں کھانوں کی اشیا اور دیگر سامان شامل ہے۔

وہ اپنے گھروں کو لوٹنا چاہتے ہیں۔

وہ اپنے مویشیوں اور ان کے تباہ شدہ گھروں کی واپسی کے لیے فوری طور پر معاوضہ چاہتے ہیں۔

- وہ لڑکیوں کے اسکول چاہتے ہیں۔

مارچ 8 سال2021 میں خیبرپختونخوا ریلیف ری ہبلیٹیشن اینڈ سیٹلمنٹ ڈپارٹمنٹ نے وزیراعظم کے پبلک افیئرز یونٹ کو کوکی خیل کے معاوضے کے بارے میں لکھا۔ جس کے بعد 26 مارچ 2021 کو وزیر اعظم کے پبلک افیئرز یونٹ نے سینیٹر مشتاق احمد خان کی طرف سے بھیجی گئی کوکی خیل قبیلے کے معاوضے کی درخواست کا جواب دیا۔

سینیٹر مشتاق کی جانب سے خط میں دی گئی معلومات کو کوکی خیل نے چیلنج کیا، جسے مقامی یونین نے بھی تسلیم کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس خط میں حقیقت کے منافی باتیں بیان کی گئیں۔

کوکی خیل قبیلہسرکاری بیان
کوکی خیل قبیلے کا کہنا ہے کہ ہمارے لیے رہا سہا یا بچا کچھا کہنا ایک سفید جھوٹ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پوری کوکی خیل قبیلے کو اب بھی ان کی نقل مکانی کی اصل جگہ پر جانے سے روک دیا گیا ہے (تیراہ راجگل) کیونکہ یہ اب بھی "نو گو ایریا" ہے اور دعویٰ یہ ہے کہ یہ علاقہ ابھی تک کلئیر نہیں ہے۔ یہاں تک ان کو اس بات کی بھی اجازت نہیں وہ اپنے خشک میوہ جات کو اٹھا سکیں، جو اس علاقے میں ان کی اپنی زمینوں پر موجود ہیں۔ دستاویز میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ رجسٹرڈ 1،373 خاندانوں میں سے 1،313 خاندان پہلے ہی واپس آچکے ہیں جو کہ غلط ہے۔ اب تک ایک بھی خاندان کو واپس جانے کی اجازت نہیں دی گئی ہے۔ کوکی خیل تیراہ راجگال سے آئی ڈی پیز ہیں، پشاور کے قریب جمرود سے نہیں۔کوکی خیل قبیلے نے اپنی درخواست میں مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنے آبائی علاقے میں واپس جائیں۔ جب کہ دیگر مختلف فورم پر بھی کوکی خیل سمیت دیگر تمام ٹی ڈی پیز کی واپس گھروں کو واپسی پر بات چیت کی گئی تھی۔ تاہم ٹی ڈی پی کی نگرانی کرنے والے ادارے اور 11 کور ہیڈکوارٹرز کا کہنا تھا کہ لیول 3 کلیرنس ملنے کے بعد لوگوں کی گھروں کو واپسی ممکن ہو سکے گی۔
تیراہ کے لوگ لوئر خیبر (جمرود اور باڑہ) کے پتے پر اپنے شناختی کارڈ بنواتے ہیں کیونکہ ہر آفریدی قبیلے کی ان علاقوں میں زمینیں ہیں۔ تیراہ ایک دور دراز علاقہ ہے۔ یہاں پہلی سڑک سنہ 2003 میں ہموار کی گئی تھی۔ وہاں کوئی سرکاری مشینری یا رجسٹریشن دفاتر نہیں تھےاور اب بھی یہ ہی حال ہے۔ چنانچہ یہ ایک بنیادی بات تھی کے شناختی کارڈ ان ایڈریس پر بنایا جائے۔ کوکی خیل آئی ڈی پیز نے سنہ 2013 سے ان امتیازی سلوک کے خلاف بار بار احتجاج کیا۔ رجسٹرڈ تیراہ آئی ڈی پیز کے شناختی کارڈز پر پتے بھی لوئر خیبر (جمرود) کے ہیں اور ان کی تصدیق رجسٹرڈ آئی ڈی پی فارمز کے سادہ آڈٹ میں کی جاسکتی ہے جو شناختی کارڈز سے منسلک ہے۔یہ مزید واضح کیا گیا کہ ان خاندانوں کی اکثریت کے دو پتے ہیں ، ایک تیراہ میں اور دوسرا جمرود میں ، جب کہ ٹی ڈی پی کی حیثیت کے لیے کوالیفائی کرنے کا معیار یہ ہے کہ موجودہ اور مستقل دونوں پتے متاثرہ علاقوں سے ہونے چاہئیں۔
غیر رجسٹرڈ آئی ڈی پیز کی تعداد 20 ہزار خاندانوں سے اوپر ہے ، جس کیلئے سنہ 2018 میں تیراہ آئی ڈی پیز کے لیے لیویز سینٹر شکاس جمرود خیبر میں رجسٹریشن فراہم کی گئی تھی۔ سنہ 2018 میں ان لوگوں کی واپسی کا منصوبہ نامعلوم وجوہات کی بناء پر روک دیا گیا تھا جب کہ سیکیورٹی فورسز نے سنہ 2018 میں اسے کلیئر قرار دیا تھا اور سال 2021 میں دوبارہ کلیرنس سے روک دیا تھا۔ایک اندازے کے مطابق 5،000 سے زائد خاندان کی جانب سے رجسٹریشن کا مطالبہ کیا گیا، تاہم فی الحال اس مرحلے میں یہ ممکن نہیں ہوسکتا۔ نئی رجسٹریشن پالیسی کے فیصلے کو مالی مسائل کی وجہ سے بند کیا گیا۔ ان لوگوں کے علاقے فی الحال ابھی تک واپسی کے لیے بند ہے، جیسے ہی سکیورٹی فورسز سے انہیں کلیرنس ملے گی، ان کی باعزت طریقے سے واپسی ممکن ہوجائے گی۔
پہلے وہ گزشتہ 10 سالوں سے بطور آئی ڈی پیز امداد سے محروم تھے اور اب وہ واپسی پر بھی معاوضے سے محروم رہیں گے چاہے ان کی تباہ شدہ املاک کی تصدیق سول انتظامیہ ، فوجی حکام اور مقامی کمیٹیاں سی ایل سی پی کے سروے کے دوران ہی کیوں نہ کی گئی ہوں۔سرکاری بیان کے مطابق وہ افراد جن کی رجسٹریشن ہو چکی ہے اور جنہوں نے وی آر ایف فارم پر دستخط کیے ہیں انہیں واپسی پر 35 ہزار فی خاندان امدادی رقم دی جائے گی۔ جب کہ وہ خاندان جن کی رجسٹریشن نہیں ہوئی، جنہیں کھانے کے علاوہ دیگر اشیاء وغیرہ فراہم کی جائیں گی۔

 

کوکی خیل کی جانب سے لکھے گئے خط میں مؤقف پیش کیا گیا ہے کہ "ہم معزز وزیراعظم عمران خان ، محترم صدر پاکستان عارف علوی سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ ان متضاد بیانات کی تحقیقات کریں، مسائل کو حل کریں تاکہ تمام کوکی خیل آئی ڈی پیز کو مکمل سپورٹ حاصل ہو اور ان کی جلد از جلد بحالی ممکن ہو تاکہ وہ اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کر سکیں۔"

لوگوں کا کہنا تھا کہ ان کی زمین اور مکانات پر غیر قانونی قبضہ کیا گیا ہے۔ بہت سے مقامات پر تنصیبات اور کمپلیکس رہائشی علاقوں میں تعمیر کیے گئے تھے جہاں مقامی لوگ "ان کی پرائیویسی میں دخل اندازی" محسوس کریں گے اور یہ ان خواتین کی نقل و حرکت پر بھی پابندی کا بھی سبب بنیں گے جو گھروں کے باہر کھیتوں اور جنگلوں میں کام کرتی ہیں۔

اس لوگوں کے بار بار احتجاج کے بعد گزشتہ سال اکتوبر میں سروے کیا گیا تھا۔ تیراہ راجگل کے سی ایل سی پی سروے میں علاقے سے بارودی سرنگوں کو بھی ختم کرنے سے متعلق اعداد شامل کیے گئے۔ بارودی سرنگوں کو فوج کی ٹیموں ، سول انتظامیہ اور مقامی کمیٹیوں کے ذریعے ختم کیا گیا۔ جس کے بعد علاقے کو کلیئر کیا گیا۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ سی ایل سی پی سروے کو تیز کیا جائے اور ہر اس خاندان کو معاوضہ دیا جائے جس کے گھر اور جائیدادیں تباہ ہوئیں (جیسا کہ سی ایل سی پی ایک تصدیق شدہ ادارہ ہے)۔ ان خاندانوں کو گزشتہ 10 سالوں سے ان کی روزی روٹی کے نقصانات کے ساتھ ساتھ ان کی تباہ شدہ املاک کے معاوضے کے لیے بھی معاوضہ دیا جانا چاہیے مگر فی الحال شناختی کارڈ پر درج عارضی پتے کی وجہ سے یہ ممکن نہیں ہے۔

اس موقع پر ان لوگوں کا کہنا تھا کہ تیراہ راجگل کے لوگ حکومت سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ عید الفطر 2021 سے قبل تیراہ آئی ڈی پیز کی واپسی کے لیے مہربان کالے اور توردرہ میں انتظامات کریں جس کا سی ایل سی پی نے سروے مکمل کرلیا ہے۔

جولائی 2021 میں 40 خاندان واپس آئے اور 95 خاندان ستمبر کے آخر میں واپس آنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ تمام خاندان مرکزی راجگل وادی سے ملحقہ علاقے میں منتقل ہورہے ہیں۔راجگال کی مرکزی وادی میں ابھی تک مقامی لوگوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ نیز تیراہ راجگال میں سی ایل سی پی کی جانب سے گزشتہ 5 ماہ سے سروے نہیں کیا گیا ہے، جس سے لوگوں کی واپسی اور گھروں کا اندازہ لگایا جا سکے۔ سروے اکتوبر 2020 میں شروع کیا گیا تھا اور اب تک (ستمبر 2021) تک مرکزی وادی سے باہر ایک مربع کلومیٹر میں مشکل سے 300 گھروں تک کیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ تیراہ راجگل ایک بڑا علاقہ ہے اور یہاں ہزاروں گھر موجود ہیں۔

RAJGAL

CAVE

TIRAH

تبولا

Tabool ads will show in this div

تبولا

Tabool ads will show in this div