پاکستان: مجموعی بینک اکاؤنٹس میں خواتین کا حصہ صرف 27فیصد

پانچ کروڑ 32لاکھ اکاؤنٹس میں مردوں کا حصہ 73فیصد ہے

پاکستان میں ایک کروڑ 45 لاکھ خواتین کے فعال بینک اکاؤنٹس ہیں، جو مجموعی فعال اکاؤنٹس کا صرف 27 فیصد بنتا ہے جبکہ مجموعی 5 کروڑ 32 لاکھ اکاؤنٹس کا بڑا شیئر 73 فیصد یا تین کروڑ 78 لاکھ اکاؤنٹس مردوں کے ہیں۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے یہ اعداد و شمار ’’بینکنگ آن ایکوالٹی: مالیاتی شمولیت میں صنفی فرق کو کم کرنا‘ کے نام سے متعارف کرائی گئی پالیسی کے تحت جاری کئے گئے ہیں۔

مرکزی بینک کا مقصد مالیاتی شمولیت میں صنفی فرق کو کرم کرنے کے ساتھ ساتھ خواتین کو معاشی سہولیات کی فراہمی تک رسائی ہے۔ اس پالیسی کا اجراء صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے ایوان صدر میں جمعہ کو ایک تقریب میں کیا تھا۔

گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر رضا باقر معالیاتی شمولیت میں صنفی فرق کو کم کرنا اب بھی ہماری ترجیح ہے۔ پہلا قدم بینک اکاؤنٹس اور برانچ لیس بینکنگ میں پیشرفت ہے، جس نے مختلف سوشیو اکنامک پس منظر رکھنے والے لوگوں کو کسی بھی لاگت کے بغیر فائنانس تک رسائی بہتر بنائی۔

انہوں نے بتایا کہ دسمبر 2020ء تک 62 فیصد بالغان نے بینک اکاؤنٹس حاصل کئے، جو 2017ء کے مقابلے میں واضح طور پر 45 فیصد زیادہ تھے، نیشنل فنانشل انکلوژن اسٹریٹیجی کے تحت اس بات کو یقینی بنانا ہدف تھا کہ 2 کروڑ خواتین 2023ء تک فعال بینک اکاؤنٹس رکھتی ہوں۔

رضا باقر کا کہنا ہے کہ مالیاتی شمولیت میں مجموعی نمو کے باوجود صنفی فرق اب بھی موجود ہے، دسمبر 2020ء تک کے اعداد و شمار کے مطابق مردوں کے 3 کروڑ 87 لاکھ فعال بینک اکاؤنٹس کے مقابلے میں خواتین صرف ایک کروڑ 45 لاکھ فعال بینک اکاؤنٹس رکھتی ہیں۔

اسٹیٹ بینک نے حال ہی میں ایسا فریم ورک متعارف کرایا ہے جس کے تحت صارفین بینک برانچز کا دورہ کئے بغیر بینک اکاؤنٹس ڈیجیٹلی کھلوا سکتے ہیں ساتھ ہی اس کا پیپر ورک بھی انتہائی آسان ہے۔ باقر کا کہنا ہے کہ یہ فریم ورک سے سیلف ایمپلائیڈ یا بیروزگار خواتین، فری لانسرز اور ڈیجیٹلی ترسیلات زر وصول کرنیوالی خواتین کی مدد کرتا ہے۔

ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک سیما کامل کا کہنا ہے کہ خواتین بالخصوص پاکستانی خواتین کو رسمی مالیاتی خدمات تک رسائی میں مختلف رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بینکنگ آن ایکوالٹی فائنانشل سیکٹر کی پہلی صنفی مین اسٹریمنگ پالیسی ہے جو ہماری پالیسیز اور پریکٹسز میں صنفی فرق متعارف کراتی ہے۔

بی او ای پالیسی پانچ بنیادی ستون متعارف کراتی ہے۔

۔1۔ مالیاتی اداروں میں صنفی تنوع اور ان کی رسائی کے مقامات کو بہتر بنانا

۔2۔ خواتین پر مبنی مصنوعات اور خدمات کی ترقی و مارکیٹنگ

۔3۔ بینکوں کی شاخوں پر خواتین کے خصوصی کاؤنٹر کا قیام

۔4۔ صنف سے الگ الگ اعداد و شمار اور ہدف کی ترتیب کا مضبوط مجموعہ

۔5۔ اسٹیٹ بینک میں صنف سے متعلق پالیسی فورم کی ادارہ سازی

مالیاتی اداروں کو اپنے خواتین اسٹاف کو دسمبر 2024ء تک 20 فیصد تک بڑھانا ہوگا، خواتین صارفین سے خواتین کی ڈیلنگ کو بہتر بنانا، برانچ لیس بینکنگ فراہم کرنے والوں کو ہدایت دی جائے گی کہ وہ اپنے بینک برانچز ایجنٹس میں خواتین کی شمولیت 10 فیصد تک بڑھا دیں۔

ایسے ہی جون 2024ء تک خواتین صارفین کی رہنمائی میں مدد کیلئے تمام بینکوں کے 75 فیصد تربیت یافتہ خواتین رکھی جائیں گی۔ مزید یہ کہ تمام بینک مرد و خواتین دونوں کیلئے صنفی امتیاز کے خاتمے کیلئے اپنے عملے کو صنفی تربیت دیں گے اور خواتین صارفین کی ضروریات کو سمجھنے میں بہتری لائیں گے۔

gender equality

Tabool ads will show in this div