ازخودنوٹس کا اختیار کیسےاستعمال کیا جائے،سپریم کورٹ نےمعاونت مانگ لی
سپریم کورٹ نے ازخودنوٹس کا اختیار کیسے استعمال کرنے سے متعلق معاونت مانگ لی ہے۔
پیر کو سپریم کورٹ میں صحافیوں کو ہراساں کرنے پر ازخود نوٹس کے دوبارہ جائزے کے کیس کی سماعت ہوئی۔ عدالت نے سوال اٹھایا کہ ازخود نوٹس کا اختیار کس انداز میں استعمال ہوسکتا ہے۔ سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل، وائس چیئرمین پاکستان بار کو نوٹس جاری کردیا۔عدالت نے معاونت کیلئے صدر سپریم کورٹ بار کو بھی نوٹس جاری کردیا۔ عدالت نے ریمارکس دئیے کہ صرف اس نکتے کا جائزہ لینگے کہ ازخودنوٹس اس انداز میں ہو سکتا ہے،صحافیوں کے مسائل کا اس کارروائی میں جائزہ نہیں لینگے۔سپریم کورٹ نے دو رکنی بینچ کے حکم نامے پر عمل درآمد روک دیاہے۔
سپریم کورٹ کی جانب سے مزید ریمارکس دئیے گئے کہ 2 رکنی بنچ نے صحافیوں کی درخواست پرازخودنوٹس لیا تھا،بنچ زیرِ التواء مقدمے میں کسی نکتے پر ازخودنوٹس لے سکتا ہے اور بنچزعمومی طور پر چیف جسٹس کو ازخود نوٹس کی سفارش کرتے ہیں۔ عدالت نے واضح کیا کہ موجودہ صورتحال میں کوئی مقدمہ زیر التواء نہیں تھا اور 2 رکنی بنچ نے براہ راست درخواست وصول کرکے نوٹس لیا۔
سپریم کورٹ کی جانب سے یہ بھی واضح کیا گیا کہ بنچ تشکیل دینا چیف جسٹس کا اختیار ہے، 2 رکنی بنچ نے 26 اگست کو سماعت مقرر کرنے کا حکم دیا،موجودہ ہفتے میں حکم دینے والا بنچ دستیاب ہی نہیں، اگر خصوصی بنچ تشکیل دینا ہو تو چیف جسٹس دیتے ہیں۔
سپریم کورٹ نے مزید ریمارکس دئیے کہ صحافیوں کی درخواست پرشفاف انداز میں کارروائی چاہتے ہیں اور ایسی کارروائی نہیں چاہتے جو کسی فریق کیلئے سرپرائز ہو،عدالت سوموٹو اور مکمل انصاف کا اختیار سسٹم کے تحت استعمال کرتی ہے،ماضی میں بھی کچھ مقدمات پر معمول سے ہٹ کر ازخودنوٹس ہوئے اور2 رکنی بنچ نے وفاقی اداروں اور سرکاری وکلاء کو نوٹس جاری کئے تھے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دئیے کہ صحافیوں کا کیس حساس ہے اور خوشی ہوئی کہ انہوں نے رجوع کیا تاہم اس بات پر افسوس ہے کہ صحافیوں نے عدلیہ پر بطور ادارہ بھروسہ نہیں کیا۔جسٹس عمر عطاء بندیال کا کہنا تھا کہ رجسٹرار آفس نے قائم قام چیف جسٹس کو معاملے سے تحریری طور پر آگاہ کیا اور رجسٹرار آفس نے کہا کہ جو انداز اختیار ہوا وہ عدالتی طریقہ کار کے مطابق نہیں۔
سپریم کورٹ بار کے صدر لطیف آفریدی نے کہا کہ تاثر ہے کہ عدلیہ میں تقسیم ہے۔ قائم مقام چیف جسٹس نے کہا کہ عدلیہ میں کوئی تقسیم نہیں، ججز کی مختلف نکات پر رائے مختلف ضرور ہوتی ہے تاہم آپ کی آنکھوں کی ٹھنڈک کیلئے ہم ایک ساتھ بیٹھ جائیں گے۔عدالت نے مزید سماعت 25 اگست 2021 تک ملتوی کردی۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے صحافیوں کو ہراساں کرنے کے معاملےکا پچھلے ہفتے از خود نوٹس لیا ہے۔ سپریم کورٹ نےڈی جی ایف آئی اے، آئی جی اسلام آباد، سیکریٹری داخلہ کو رپورٹس کے ہمراہ ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا ہے۔ سیکریٹری انفارمیشن، سیکریٹری اطلاعات، سیکریٹری وزارت انسانی حقوق کو بھی رپورٹس کے ہمراہ ذاتی حیثیت میں طلب کیا گیا ہے۔
صحافتی تنظیموں سی پی این ای،اے پی این ایس، پی بی اے اور پی ایف یو جے کو بھی نوٹسز جاری کئے گئے ہیں۔سپریم کورٹ نے صحافیوں پر ہونے والے حملوں اور مقدمات کی پیش رفت رپورٹس بھی طلب کرلی ہیں۔ سیف سٹی پراجیکٹ کی فوٹیج اور خرچے کی تفصیلات بھی طلب کی گئی ہیں۔
سپریم کورٹ نے ہدایت کی ہے کہ تمام تحریری جوابات 26 اگست تک جمع کرائے جائیں اوراس کیس کو اسی بنچ کے سامنے 26 اگست کو فکس کیا جائے۔ سپریم کورٹ کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ آرٹیکل 184(3) کے تحت سپریم کورٹ نے عوامی مفاد میں نوٹس لیا۔