بلوچستان، ایک انتخابی تجربہ گاہ
عام انتخابات 2023ء میں شاید ایک بار پھر بلوچستان میں تجربہ ہونے جارہا ہے۔ اگرچہ 2013ء کے عام انتخابات بھی ایک تجربہ تھے تاہم اس میں پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی شامل تھیں۔ اس انتخاب میں مسلم لیگ نواز کے ٹکٹ پر 8 امیدوار کامیاب ہوئے تھے، بعد ازاں بھانت بھانت کے امیدوار حلقہ بگوش ن لیگ ہوگئے، یوں تعداد 22 بن گئی۔ چنانچہ مخلوط حکومت کے قیام کا ڈھائی، ڈھائی سال کے فارمولے کے تحت فیصلہ ہوا۔ یہ معاہدہ پر فضا مقام مری میں مسلم لیگ ن کے سربراہ نواز شریف، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے چیئرمین محمود خان اچکزئی اور نیشنل پارٹی کے صدر حاصل بزنجو مرحوم کے درمیان ہوا تھا، پشتونخوا میپ، نیشنل پارٹی کی طرفدار تھی، سو پہلے ڈھائی سال کیلئے نیشنل پارٹی کے ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ وزیراعلیٰ بنے۔ بعد ازاں مسلم لیگ ن کے نواب ثنا اللہ زہری باقی ماندہ عرصہ کیلئے صوبے کے وزیراعلیٰ رہے تآنکہ ان کے حکومت کیخلاف تحریک عدم اعتماد کی سازش ہوئی۔ دراصل وہ وار میاں نواز شریف پر تھا وگرنہ ثناء اللہ زہری سے کسی کو پُرخاش نہ تھی۔
اس طرح 2018ء کے عام انتخابات کیلئے مقتدرہ کی لیبارٹری میں تجربے ہونے لگے۔ نواب زہری کی رخصتی کے بعد عبدالقدوس بزنجو کو6 ماہ کیلئے وزارت اعلیٰ کا اہم اور بڑا منصب دینے کا انتہائی نامعقول فیصلہ صادر ہوا۔ اس حکومت کے اختتام پر بلوچستان عوامی پارٹی کی تشکیل ہوئی۔ مسلم لیگ نواز سے وابستہ اراکین صوبائی اسمبلی جنہوں نے عدم اعتماد کی تحریک میں بھی حصہ ڈال رکھا تھا، اشارہ ملتے ہی اس جماعت میں جوق در جوق داخل ہوئے۔ اس گروہ کی جانب سے نگراں حکومت کی تشکیل میں بھی صوبے کی حرمت کا خیال نہ رکھا گیا۔ نگراں وزیراعلیٰ کیلئے جب ان کے اور حزب اختلاف کے درمیان اتفاق نہ ہوا تو آئینی طور معاملہ الیکشن کمیشن کے پاس گیا۔
عبدالقدوس بزنجو کی حکومت کی حکمت عملی بھی یہی تھی کہ معاملہ الیکشن کمیشن میں جائے۔ ظاہر ہے اس ادارے سے من مانا فیصلہ کرانے میں کوئی مشکل نہ تھی اور ایسا ہی ہوا۔ عبدالقدوس بزنجو اور اس کے ہم خیالوں کا نگراں وزیراعلیٰ کیلئے انتخاب علاء الدین مری نامی شخص تھا۔ اس بندے کا کوئی سیاسی و قبائلی پس منظر نہ تھا۔ وہ اسمگلر کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ نگراں وزیراعلیٰ کے تقرر کی پاداش میں 4 افراد کو بھاری رقوم دی گئی تھی۔ رقم لینے والوں میں 3 حکومتی افراد تھے، غرضیکہ عام انتخابات کے بعد صوبے میں بلوچستان عوامی پارٹی (باپ)، عوامی نیشنل پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی، ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی پر مشتمل مخلوط حکومت بنی۔
باپ پارٹی کے اندر سے جام کمال عالیانی البتہ خیر کی صورت برآمد ہوئے ہیں۔ تاہم ان کی ن لیگ سے مشکل وقت میں دغا تاریخ کا حصہ بن چکی ہے۔ چناں چہ بلوچستان میں ”بھان متی“ نے ایک بار پھر کنبہ جوڑنا شروع کردیا ہے۔ سردست اس کنبے میں سابق وفاقی وزیر و گورنر بلوچستان جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ، سابق وزیراعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری، نیشنل پارٹی کے رہنماء نواب محمد خان شاہوانی جو پچھلی حکومت میں وزیر بھی رہ چکے ہیں اور 2002ء میں صوبائی وزیر کھیل رہنے والے کرنل (ر) یونس چنگیزی بھی شامل ہوگئے۔ 8 اگست کو شمولیتی تقریب میں شرکت کیلئے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری خصوصی طور پر کوئٹہ آئے۔
یاد رہے 2008ء کے عام انتخابات میں بننے والی حکومت میں پیپلز پارٹی میں شامل ہونے والے آغا عرفان کریم بھی شامل ہوگئے، جن کے پاس وزارت کا قلمدان تھا، ان کی اہلیہ روبینہ عرفان بلوچستان عوامی پارٹی سے تعلق رکھتی ہیں۔ آغا عرفان کریم نے مارچ 2010ء کوئٹہ کی وحدت کالونی میں فرنٹیئر کور کے ساتھ مقابلے میں ہلاک ہونیوالے بی ایل اے کے کمانڈر مجید لانگو جونیئر کیلئے اسمبلی میں دعا بھی کرائی تھی جو پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے صوبائی وزیر تعلیم شفیق الرحمان کو قتل کرنے سمیت کئی سنگین جرائم میں ملوث تھا۔ اس اسمبلی میں بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی مسلح گروہ کی بڑی پشت بان بنی رہی۔
پیپلز پارٹی کے صادق عمرانی بھی گاہے بہ گائے الزام لگاتے رہے ہیں کہ ایف سی لوگوں کو اٹھا کر لاش پھینک دیتی ہے۔ بہر کیف دیکھنا یہ ہے کہ پیپلزپارٹی میں مزید کون سے چہرے اپنی بھرتی کراتے ہیں۔ عبدالقادر بلوچ نے ن لیگ چھوڑنے کا عذر پی ڈی ایم کوئٹہ کے جلسہ میں ثناء اللہ زہری کو مدعو نہ کرنے کا پیش کیا۔ اس ذیل میں نواب زہری نے بھی سلوک کو توہین سے تعبیر کیا۔ یوں دونوں نے ن لیگ سے رفاقت ختم کردی، اگلے روز ہی پیپلز پارٹی کے نمائندوں نے آصف زرداری کے توسط سے ملاقات میں انہیں شمولیت کی دعوت دی۔ ویسے نواب زہری کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک میں آصف علی زرداری کا کردار بھی تھا۔ عبدالقادر بلوچ اس بنا پر الگ ہوئے کہ ان کے قبیلے کے سردار کو بے توقیر کیا گیا۔ دوئم یہ کہ نواز شریف فوج کے خلاف بولے ہیں گویا یہ دلیلیں ہیں جو خود کیلئے گڑھی گئی ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ ان دو صاحبان کو نواز شریف نے بڑی عزت دی ہے۔ عبدالقادر بلوچ وفاقی وزیر سرحدی امور و سیفران بنائے گئے، 5 سال تک اس عہدے پر رہے۔ نواز شریف کے خاص لوگوں میں شامل تھے۔ یہی نواب زہری کے ساتھ کیا، صوبے کا وزیراعلیٰ بنایا گیا، تمام معاملات میں بااختیار تھے۔ مارچ 2015ء کے سینیٹ انتخابات میں بھائی اور سالے کو سینیٹر بنوایا، نواز شریف کے دیرینہ ساتھی سردار یعقوب ناصر کو ہروائے گئے، جسے بعد میں نواز شریف نے اسلام آباد سے سینیٹر کامیاب کرایا، لیکن نواب زہری سے کوئی شکایت نہیں کی۔ جان جمالی نے نواب زہری کے مختار کل بنے رہنے کی مخالفت کی، اپنی بیٹی کو سینیٹ الیکشن لڑوایا وہ ہار تو گئی مگر ووٹ زبردست لئے۔ ن لیگ کی قیادت نے البتہ جان جمالی کو دور رکھا، انہیں اسپیکر کے منصب سے علیحدہ کیا جب نیشنل پارٹی کے پاس وزارت اعلیٰ تھی تو نواب زہری نے دوسرے موسمی لیگیوں کے ساتھ مل کر ایک لمحہ بھی انہیں چین سے حکومت کرنے نہیں دیا، ڈاکٹر عبدالمالک کیلئے مسائل بنائے، کبھی اسمبلی اجلاسوں کا بائیکاٹ کیا جاتا، کبھی سی ایم ہاؤس نہ جانے کا اعلان کیا جاتا، جن کے سہارے ڈاکٹر عبدالمالک پر دباؤ کے حربے استعمال کیے، وقت آخر ان سب نے نواب زہری کو چھوڑ کر عدم اعتماد کی تحریک میں حصہ لیا، نواب زہری اگر پاپولر ہوتے تو وہ وہ سب ان کے ساتھ ہوتے۔
پیپلز پارٹی میں شمولیت کے دن نواب زہری نے میاں نواز شریف پر تبرا کیا۔ ثناء اللہ زہری کا ماضی قوم پرست سیاست کا رہا ہے۔ نواب اکبر خان بگٹی کے سانحے کے بعد قلات میں بلوچ گرینڈ قومی جرگہ میں چیف آف جھالاوان کی حیثیت سے شامل تھے، اس جرگہ نے پاکستان کے ساتھ رہنے یا نہ رہنے کا فیصلہ کرنا تھا۔ چنانچہ جرگہ نے خان آف قلات میر سلیمان داؤد کو لندن بھیجا تاکہ وہاں پاکستان سے الحاق کے فیصلے کو چیلنج کریں۔
نیشنل پارٹی نے نواب اکبر بگٹی کے قتل سمیت پرویز مشرف کیخلاف احتجاج کرتے ہوئے دیگر قوم پرست جماعتوں کے ہمراہ مل کر 2008ء کے عام انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کیا، تو نواب زہری نے اپنی الگ جماعت بنالی۔ نواب بگٹی واقعہ کیخلاف نواب زہری دیگر بلوچ سیاسی جماعتوں اور زعماء کے ہمراہ پریس کانفرنسوں، جلسوں میں بڑے مغضوب الغصب دکھائی دیتے۔ پھر 2010ء میں ن لیگ میں شامل ہوئے، پھر ایسا بھی دیکھنے اور سننے کو ملا کہ بحیثیت وزیراعلیٰ بلوچستان 19 نومبر 2016ء کو ڈیرہ بگٹی میں جلسہ عام سے خطاب میں فرمایا کہ ”ماضی میں سوئی اور ڈیرہ بگٹی میں جلسہ تو کیا سیاسی بات کرنا بھی جرم تھا، یہاں ترقیاتی منصوبے شجر ممنوعہ تھے، آج پاکستان کی تاریخ کا پہلا موقع ہے کہ ایک منتخب وزیراعلیٰ (نواب ثناء اللہ زہری) بگٹی قبیلے سے مخاطب ہورہا ہے۔ نیز غلام قادر مسوری بگٹی اور امیر حمزہ بگٹی اور دیگر لوگ نجی جیل میں رہیں۔“ اشارہ نواب اکبر خان بگٹی (مرحوم) کے حیات کے دور کی طرف ہے۔
یہاں وقتاً فوقتاً اسپیکر عبدالقدوس بزنجو جام مخالفت میں بدکتے رہتے ہیں، 11 اگست کو پھر ویڈیو بیان ریکارڈ کرایا جس میں جام کمال پر حلقے میں مداخلت، فنڈز نہ دینے اور پارٹی کو نقصان پہنچانے کے الزامات لگائے۔ جس کا جام کمال نے بھی سخت جواب دیا اور انہیں اسپیکر کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں ٹھیک سے نبھانے کا مشورہ دیا۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ کیا کبھی ایوان اتنی غیر ذمہ داری، غیر سنجیدگی اور غیر دلچسپی سے چلا ہے جو اب چل رہا ہے؟۔ وزیراعلیٰ نے جون میں بجٹ اجلاس کے موقع پر اپوزیشن کے احتجاج کے دوران ہنگامہ آرائی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’بلوچستان اسمبلی پر حملے کی پوری ذمہ داری اسپیکر پر عائد ہوتی ہے جو قریب ہی سرینا ہوٹل میں بیٹھ کر تماشہ دیکھ رہے تھے، موصوف اپنے حلقے پر توجہ دیں جہاں وہ تین سال میں ایک بار بھی نہیں گئے، جو شخص اپنا حلقہ چلا سکے اور نہ ہی اسمبلی، وہ اپنے بچگانہ مشورے اپنے پاس رکھے اور کام پر توجہ دے۔
حلقے میں مداخلت کے الزام پر وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ ’آواران کو تباہی تک لے جانے والا شخص چاہتا ہے کہ صوبے کا حال بھی ایسا کر دے، میں ایک غیرسنجیدہ شخص کے ہاتھوں آواران کو اس طرح بے یار و مددگار نہیں چھوڑ سکتا، لوٹ مار کا بازار گرم ہو، منصوبے تباہ ہوں اور ہم کچھ نہ کریں، ایسا نہیں ہو سکتا۔ حکومت نے پہلے بھی ایکشن لیا اور اب بھی لے گی، پارٹی بہتر ہورہی ہے جو بھی نقصان ابھی تک ہوا ہے اس میں قدوس بزنجو کی سازشوں کا بڑا ہاتھ ہے، جو شخص پہلے دن سے پارٹی کو توڑنے کی نیت سے آیا ہو، وہ پارٹی بہتر بنانے کا درس نہ دے، برداشت کی حد ہوگئی ہے، ان کے بار بار کے ڈرامے سب پر عیاں ہوگئے ہیں‘۔
عبدالقدوس بزنجو کے ویڈیو بیان کے بعد ان سے بلاول بھٹو زرداری اور آصف علی زرداری بھی ٹیلی فون پر بات کرچکے ہیں، نہ جانے کیوں یہ شخص اپنی اہمیت و ضرورت جتاتے رہتے ہیں، آج اگر مقتدرہ ہاتھ اٹھائے تو شاید کونسلر بھی نہ بن سکیں۔ ان کی گاہے بہ گاہے جام کمال پر تنقید سے نقصان مجموعی حکومتی نظام کو ہورہا ہے۔ عوام کی نفسیات پر منفی اثرات پڑتے ہیں۔اور پھر اگر موجودہ حکومت ناکام ہوتی ہے تو بادی النظر میں مقتدرہ ناکام ہوجاتی ہے۔
قدوس کہتے ہیں کہ جام ان کے حلقے میں ان کے مخالف رامین محمد حسنی پر ہاتھ رکھے ہوئے ہیں۔ فطری بات ہے کہ جب ایک شخص جب کوئٹہ کی چھاؤنی تک محدود ہو، کبھی ایک منٹ کیلئے بھی اپنے حلقہ انتخاب میں نہ گیا ہو، تو کیوں نہ اس حلقے کیلئے متبادل ڈھونڈا جائے۔ جام اگر واقعی چاہتے ہیں یا مقتدرہ کو بھی سنجیدگی سے دیکھنا چاہئے کہ آواران میں رشید بلوچ اہم امیدوار ثابت ہوسکتے ہیں، وہ صحافی و کالم نگار ہیں، وہاں کی سیاست اور انتخاب میں بھی حصہ لے چکے ہیں۔ 2002ء میں ضلع ناظم آواران کے انتخاب میں محض 12 ووٹوں سے کامیابی سے دور رہ گئے ہیں۔ اس سے بڑھ کر وہاں کی اکثریتی محمد حسنی قبیلے سے ناصرف تعلق بلکہ محمد حسنی اقوام وعلاقہ میں معروف بھی ہیں۔