متروک شدہ دھوبی گھاٹ کا بوڑھا دھوبی

چند روز پہلے میں راولپنڈی پریس کلب کے احاطے میں بیٹھا ہوا تھا کہ میرے چند سینئر صحافی دوستوں نے مجھے ایک اسٹوری پر کام کرنے کا مشورہ دیا۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ گوالمنڈی کے پاس کنٹونمنٹ بورڈ کا ایک متروک شدہ دھوبی گھاٹ ہے وہاں ایک سنکی بابا اکثر اوقات بیٹھا رہتا ہے اور اگر کوئی اس سے بات کرنے کی کوشش کرے تو وہ سنی ان سنی کر دیتا ہے۔ میرے دوستوں کا خیال تھا کہ کوئی نہ کوئی وجہ ضرور ہے ورنہ متروک شدہ دھوبی گھاٹ پر کوئی کس لیے خواہ مخواہ بیٹھا رہے گا۔ مشورہ مجھے پسند آیا اور میں نے ارادہ کر لیا کہ اتوار کے دن جب میری دفتر سے چھٹی ہو گی ان صاحب سے ملنے ضرور جاؤں گا۔ سو اتوار کے روز میں گوالمنڈی کے اس دھوبی گھاٹ پہنچ گیا۔ وہاں پہنچ کر میں نے اردگرد کے دوکانداروں سے پتہ کیا تو معلوم ہوا کہ وہ بزرگ تھوڑی دیر پہلے ہی یہاں سے روانہ ہوئے ہیں۔ اب میرا ارادہ تھا کہ ان کا گھر تلاش کیا جائے اور کوشش کر کے ان سے یہ پوچھا جائے کہ یہ ہر روز دھوبی گھاٹ پر کئی کئی گھنٹے کیوں گزارتے ہیں۔ قریب کے ایک دوکاندار سے ان کا پتہ معلوم کیا تو دوکاندار نے ایک نوجوان کی ذمہ داری لگائی کہ وہ مجھے ان کے گھر لے جائے۔ بزرگوار کا گھر زیادہ دور نہیں تھا اور ہم تھوڑہی دیر میں ان کے دروازے کے باہر کھڑے تھے۔ نوجوان جو کہ اس بزرگ دھوبی کا جان پہچان والا تھا مجھے منزل مقصود تک پہنچا کر وہاں سے روانہ ہوگیا۔ میں نے ان کے گھر کے باہر کھڑے ہو کر سوچا کہ گھںٹی بجاؤں یا پھر دروازے پر دستک دوں مگر پتہ چلا کہ دونوں امور ہی ناقابل عمل ہیں کیونکہ گھر کے داخلی راستے پر صرف ایک بوسیدہ سی چادر پڑی ہوئی تھی۔ میری مشکل بھانپ کر ایک اور شخص نے آواز لگائی تو ایک ستر پچھتر سال کی ایک معمر شخصیت باہر آ گئی جس کے دونوں بازوؤں سے پانی ٹپک رہا تھا اور محسوس ہو رہا تھا کہ وہ کپڑے دھونے میں مصروف تھے اور میری وجہ سے انہیں گھر سے باہر آنا پڑا۔ زرا کھڑے لہجے میں پوچھنے لگے کیوں کیا کام ہے۔ اس پر میں نے عرض کی کہ کیا آپ وہی ہیں جو عام طور پر دھوبی گھاٹ پر بیٹھے رہتے ہیں۔ اس پر وہ کہنے لگے کہ اب تو عرصہ ہو گیا ہے وہاں گئے ہوئے۔ میں نے نام پوچھا تو کہنے لگے کی ان کا نام جمیل ہے۔ میں نے پھر کہا کہ آپ کے اڑوس پڑوس کے لوگ تو کہتے ہیں کہ آپ اب بھی ہر روز وہاں پائے جاتے ہیں تو اس پر وہ تھوڑے سخت لہجے میں کہنے لگے کہ دو سال ہو گئے میں نے وہاں کا رخ بھی نہیں کیا۔

خیر میں نے اپنے سوال پر ڈٹا رہنے کے بجائے ان سے پوچھا کہ آپ نے دھوبی گھاٹ کیوں چھوڑا تو اس پر وہ کہنے لگے کے بیس سال پہلے راولپنڈی میں شدید سیلاب آیا تھا جس کی وجہ سے دھوبی گھاٹ کا ٹیوب ویل خراب ہو گیا اور اس کے بعد چونکہ ٹیوب ویل کو کسی نے ٹھیک نہیں کروایا تو پھر دھوبی گھاٹ کی رونقیں ماند پڑ گئیں۔ ٹیوب ویل خراب ہونے سے پہلے ایک سو پچاس دھوبی وہاں کام کرتے تھے مگر جب پانی کی فراہمی کا ذریعہ ہی ختم ہو گیا تو پھر وہ سب لوگ بے روزگار ہو گئے اور اب وہ تمام فوت ہو چکے ہیں بس میں ہی ان میں زندہ بچا ہوں، بزرگ مزید گویا ہوئے۔ بچے پڑھ لکھ گئے ہیں اور ان کو بھی دھوبی کے کام سے کوئی رغبت نہیں۔ کرونا آنے سے پہلے ہوٹل والے کچھ کام بھیج دیتے تھے اب وہ بھی نہیں رہا۔ ہر گھر میں واشنگ مشینیں ہیں اب کسی کو دھوبی گھاٹ کے دھوبی کی ضرورت نہیں رہی ہے۔ ابھی وہ مزید کچھ اور کہنا ہی چاہ رہے تھے کی ایک بڑی عمر کی خاتون نے دروازے پر پڑی ہوئی چادر ہٹا کر استفسار کیا کہ میں کون ہوں۔ تعارف کروانے پر کہنے لگیں کہ اپنا اتہ پتہ کاغذ پر لکھ کر دے دو تاکہ اگر کبھی ضرورت پیش آئے تو وہ مجھ سے رابطہ کر سکیں۔ میں نے حکم کی تعمیل کی اور اجازت لے کر وہاں سے روانہ ہو گیا۔ دل میں خیال آیا کہ کیوں نہ دھوبی گھاٹ کو ایک نظر غور سے پھر دیکھ لوں۔ راہ چلتے ہوئے بار بار ایک خیال تنگ کر رہا تھا کہ لوگ تو کہتے ہیں کہ بوڑھا دھوبی اب بھی ہر روز دھوبی گھاٹ پابندی سے جاتا ہے اور وہاں اپنے خیالوں میں گم سم بیٹھا رہتا ہے مگر یہ سرے سے ہی منکر ہیں کہ یہ اب وہاں نہیں جاتے۔ اپنے خیالوں میں غلطاں میں دوبارہ دھوبی گھاٹ پہنچ گیا۔ دھوبی گھاٹ کے اردگرد باڑ لگی ہوئی تھی اور اسے کے اردگرد گاڑیوں کے مکینک دوکانیں کھولے اپنے کام کاج میں مصروف تھے۔ مجھے کافی بڑا چکر کاٹ کر دھوبی گھاٹ کے اندرجانے کا راستہ ملا۔ باڑ کے باہر کئی عدد گدھے بھی بندھے ہوئے تھے۔ مجھے دھوبی گھاٹ کے منظر میں محو دیکھ کر ایک دوکاندار میری طرف لپکا اور چھوٹتے ہی کہنے لگا کہ کیا میں کنٹونمنٹ بورڈ سے آیا ہوں۔ میرا جواب نفی میں پا کر وہ کہنے لگا کہ پھر آپ صحافی ہو نگے۔ جواب اثبات میں پا کر وہ کہنے لگا ہمارا خیال رکھیں کہ کہیں آپ کی کسی رپورٹ کی وجہ سے ان کے خلاف آپریشن کے اسباب پیدا نہ ہو جائیں۔ مجھے اس وقت صرف قدرے تنہائی درکار تھی اور بڑی مشکلوں سے اس دوکاندار سے میں نے جان چھڑائی۔ زرا دم لے کر میں نے ادھر ادھر دیکھنا شروع کیا۔ ایک وسیع احاطہ تھا جو کہ خالی پڑا ہوا تھا اور اس کے ساتھ والی دوکانوں کے ناموں کے ساتھ دریا آباد کے بورڑ لگے ہوئے تھے۔ گویا اس علاقے کا نام ہی دریا آباد تھا۔ اس کے ساتھ ہی بہت چوڑے پاٹ والا نالہ لئی بہہ رہا تھا۔ آج سے پچاس یا سو سال پہلے نالہ لئی شفاف پانی کا دریا ہو گا تبھی تو اس علاقے کا نام دریا آباد پڑا۔ میں پھر سوچنے لگ گیا کہ جمیل دھوبی کیوں اصرار کر رہا تھا کہ وہ اس جگہ اب نہیں آتا مگر حقیت میں وہ ہر روز یہاں آتا ہے۔ اچانک میرے ذہن میں عدیم ہاشمی کا ایک شعر در آیا اور مجھے اپنے تمام سوالوں کے جواب مل گئے۔ وہ شعر تھا: کوئی کنار آب جو بیٹھا ہوا ہے سرنگوں کشتی کدھر چلی گئی جانے کدھر بھنور گئے مجھے احساس ہوا کہ بوڑھا دھوبی اپنے تمام دوستوں سے محروم ہو چکا ہے جن کے ساتھ اس نے اسی دھوبی گھاٹ پر کپڑے دھوتے ہوئے ایک عمر گزاری تھی۔ پچاس سال پہلے اس نے تصور بھی نہیں کیا ہو گا کہ دھوبی گھاٹ کبھی نام کا ہی دھوبی گھاٹ رہ جائے گا اور اس پرمحنت مشقت کرتے دھوبی اچھے وقت کے گماں میں پیوند خاک ہو جائیں گے۔ اور دریائے لئی بھی دریا نہیں رہے گا بلکہ نالہ لئی بن جائے گا۔ بوڑھے دھوبی کا سرمایہ اب پرانی یادیں ہی ہیں اور اسے دھوبی گھاٹ پر کچھ وقت گزار کر اسے اپنی پرانی یادوں سے محظوظ ہونے کا موقع ملتا ہو گا۔ اور وہ نہیں چاہتا ہو گا کہ کوئی اس کے اس من پسند مشغلے میں مداخلت کرے۔ جمیل دھوبی کو اپنی پرائیویسی سے پیار ہے۔ اور یہ وہ پرائیویسی ہے جو اسے صرف دھوبی گھاٹ پر ہی میسر آتی ہے۔ اور وہ اس پرائیوسی کا راز فاش کر کے اس کا حسن برباد نہیں کرنا چاہتا۔ ان خیالات کا آنا تھا کہ میں بھی مطمئن ہو گیا اور واپسی کی راہ لی۔ نالہ لئی جو کہ کبھی دریاے لئی تھا اب بھی ساون کے پانی سے شرابور اپنی طغیانی پر نازاں بہتا جا رہا تھا۔