میرے نزدیک سب سے بڑا مسئلہ اللہ سے دوری ہے،مولانا طارق

اچھائی اتنی بیان کریں کہ برائی اسی میں دب جائے
فائل فوٹو

معروف مذہبی شخصیت مولانا طارق جمیل کا کہنا ہے اللہ کے بندوں کو ان کا حق نہ دینا اسی وجہ سے ہے کہ اظہارِ رائے کی آزادی سلب کرنے والے اللہ کو نہیں جانتے اگر وہ اللہ کو جانیں تو ایسا کیوں کریں۔ پاکستان میں بے شمار مسائل ہیں، میرے نزدیک سب سے بڑا مسئلہ اللہ سے دوری ہے۔

برطانوی نشریاتی ادارے کو انٹرویو میں مولانا طارق جمیل کا کہنا تھا کہ میرے تو سارے بیان ہی حقوق العباد پر ہوتے ہیں، میں حقوق اللہ کو بھی بیان کرتا ہوں لیکن جتنا اللہ نے بیان کیا ہے اور حقوق العباد کو بھی اتنا ہی بیان کرتا ہوں جتنا اللہ نے بیان کیا ہے۔ اللہ نے حقوق العباد کو پھیلا کر بیان کیا ہے۔ اللہ نے اپنے حقوق مختصر بیان کیے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ گذشتہ تیس برس سےانھوں نے معاشرے میں انسانیت کو ابھارنے کی کوشش کی ہے اور انسانی حقوق کو اجاگر کیا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے ملک میں لاپتہ افراد جیسے سنگین اور بڑے مسئلے کی مذمت نہ کرنے پر بتایا کہ میرے ذمے اللہ کے دین کی دعوت دینا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ہماری تبلیغ کا ایک اصول ہے، ہم مذمت نہیں کرتے، منفی بات نہیں کرتے بلکہ ہم مثبت بات کرتے ہیں۔ کسی کو برا نہیں کہتے اچھائی کو بیان کرتے ہیں، اچھائی اتنی بیان کریں کہ برائی اسی میں دب جائے۔

خواتین ہر روپ اور حق کی بات

معروف مبلغ کا یہ بھی کہنا تھا کہ میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے صرف وراثت کے معاملات پر ہی بات نہیں کرتا ہوں، بلکہ اس کے ہر روپ میں اس کے حقوق کی بات کرتا ہوں کہ ایک عورت کے ماں یا بیوی کے طور پر کیا حقوق ہیں، بیٹی، بہن کے روپ میں کیا حقوق ہیں۔ پھر ہمارے معاشرے میں سسرال میں آنے والی بچیوں پر ظلم کے حوالے سے میں بات کرتا ہوں، پھر ایسی بچیاں جو غصیلے یا بدزبان ہوتی ہیں، میں تو پورے معاشرے پر بات کرتا ہوں۔

نور مقدم کیس

اس سوال پر کہ حال ہی میں پاکستان بھر میں زیرِ بحث نور مقدم کیس سمیت اس جیسے موضوعات پر ان کا کوئی بیان یا پیغام دیکھنے کو نہیں ملا، طارق جمیل نے کہا کہ میں کلی چیزوں پر بات کرتا ہوں، یہ جزیات ہیں کہ فلاں جگہ پر یہ واقعہ ہوا یا فلاں جگہ پر ایسا ہوا میں ان پر بات نہیں کرتا ہوں۔

انداز کہانی والا کیوں

اپنے انداز سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب پر مولانا کا کہنا تھا کہ اللہ قرآن میں نصیحت کو کہانی کے انداز میں بیان کرتا ہے۔ حضرت موسیٰ کا قصہ سناتا ہے اس میں نصیحت ہے، ذوالقرنین کی کہانی سناتا ہے اس میں نصیحت ہوتی ہے، اصحاب کہف کی کہانی سناتا ہے اس میں نصیحت ہوتی ہے۔ لہٰذا کہانی کے انداز میں چیز انسان کے دل و دماغ میں اترتی ہے۔

اس سوال پر کہ کیا اس میں کمزور روایت کی گنجائش پیدا ہو سکتی ہے؟ ان کا کہنا تھا کہ ’جی بالکل اس میں کمزور روایت کو پیش کر سکتے ہیں۔

طارق جمیل اور عمران خان

عمران خان سے قریبی تعلق

وزیر اعظم عمران خان سے قریبی تعلق اور ان کے بارے میں بات کرتے ہوئے مولانا طارق جمیل کا کہنا تھا کہ انھوں نے سنہ 1992 سے جس وقت وسیم سجاد قائم مقام صدر تھے سے لے کر موجودہ وزیراعظم عمران خان تک سوائے بے نظیر بھٹو کے سب سے ملاقات کی ہے۔

ویسے تو بہت عرصے سے ہماری سلام دعا ہے لیکن بطور وزیر اعظم جب عمران خان نے مجھے بلایا اور کہا کہ مولانا میں چاہتا ہوں کہ میرے نوجوان اپنے نبی کے ساتھ جڑ جائیں اور ان کی زندگی کو اپنائیں، یہ بات اس سے پہلے مجھے کسی حکمران نے نہیں کہی۔

طارق جمیل اور عمران خان

برینڈ کا مقصد

مولانا طارق جمیل نے کچھ عرصہ قبل ہی کپڑوں کا ایک برینڈ بھی شروع کیا ہے جس کا نام بھی خود ان کے نام پر ہے۔ یہ برینڈ سامنے آنے کے بعد ان پر تنقید بھی کی گئی جس کا جواب دیتے ہوئے طارق جمیل نے کہا کہ ان کے اس کاروبار کا بنیادی مقصد مدارس کو چلانے کے لیے رقم مہیا کرنا ہے۔ اس برینڈ کو بنانے کا مقصد کوئی پیسا بنانا نہیں ہے بلکہ یہ کوشش ہے کہ وہ مدارس جو میرے ذریعے سے چل رہے ہیں وہ لوگوں سے مانگیں نہیں، ان کو مانگنے سے منع کرنا ہے۔ میں کوئی دس بارہ مدارس چلا رہا ہوں اور ہمارے ہاں مدارس کا نظام ہے چندہ۔ ہم چندہ مانگتے ہیں اور زکوۃ مانگتے ہیں اور اس سے یہ مدارس چلاتے ہیں۔ میں بھی گذشتہ بیس سال سے یہ ہی کر رہا ہوں۔

IMRAN KHAN

ISLAM

Maulana Tariq Jamil

Tabool ads will show in this div