گھریلو تشدد بل شریعت کےمنافی ہے،ڈی جی اسلامی نظریاتی کونسل

اسلامی نظریاتی کونسل کے ڈائریکٹر جنرل ریسرچ نے گھریلو تشدد بل 2021 کے چند نکات پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے انہیں شرعی احکامات کے منافی قرار دیا ہے۔ سماء ڈیجیٹل سے گفتگو کرتے ہوئے اسلامی نظریاتی کونسل کے ڈائریکٹر جنرل ریسرچ ڈاکٹر انعام اللہ نے بل میں لفظ تشدد کی تعریف پر بھی سخت تحفظات کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ یہ بھی شرعی تعلیمات کے خلاف ہے اور یہ کسی گھرانے کے والد یا کسی بھی دوسرے بزرگ سرپرست کے نگرانی کے کردار کو کمزور کرنے کا سبب ہوگا۔ فی الوقت کونسل کے اراکین کی تعداد نامکمل ہے اور کونسل کی جانب سے درخواست کے باوجود حکومت نے اب تک خالی پوسٹس پر تقرریاں نہیں کی ہیں۔ کونسل اس وقت صرف 12 اراکین کی مدد سے اپنے فرائض انجام دے رہی ہے جبکہ حکومت کو ابھی 2 ججوں اور ایک خاتون سمیت مزید 8 اراکین مقرر کرنے ہیں۔ تاہم سماء ڈیجیٹل کو بتایا گیا ہے کہ جیسے ہی حکومت مطلوبہ تقرریاں کرتی ہے کونسل بل کے حوالے سے اپنا اجلاس بلا کر اپنی سفارشات حکومت کو پیش کر دے گی۔ ڈاکٹر انعام اللہ نے کہا کہ بل کی اصل تعریف ہی شریعت کے بنیادی اصولوں کے منافی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس بل میں کی گئی گھریلو تشدد کی تعریف کے مطابق یہ ایک ایسا عمل جس میں جسمانی، جذباتی، نفسیاتی، جنسی اور معاشی استحصال کیا جائے اور اس کا ارتکاب کسی شخص نے ایسے انسان کے ساتھ کیا ہو جو اس کے ساتھ کسی رشتے میں منسلک ہو اور ایسے عمل سے متاثرہ شخص کو خوف محسوس ہوا ہو یا اسے جسمانی و نفسیاتی تقصان پہنچا ہو۔ انہوں نے کہا کہ اس تعریف کے تحت کوئی باپ اپنے بیٹے یا بیٹی کو کسی ایسے عمل سے نہیں روک سکے گا جو اخلاقی یا معاشرتی لحاظ سے غیر مناسب ہو۔ ڈاکٹر انعام اللہ کا کہنا تھا کہ اس قانون کے تحت کوئی باپ اپنی بیٹی کو لوگوں کے ساتھ ناپسندیدہ تعلق استوار کرنے سے بھی نہیں روک سکے گا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ گھر کے کسی فرد کا دوسرے کو مذہبی تعلیمات یا اخلاق کے منافی کسی عمل کو ترک کرنے کی ہدایت کرنا بھی جرم کے زمرے میں آئے گا۔ انہوں نے کہا کہ یہ قانون ایسے کسی متاثرہ شخص کی گھر سے بھاگنے، کسی این جی او یا شیلٹر ہوم کی پناہ لینے کی بھی ہمت افزائی کرتا ہے جس سے سرپرست یا ولی پر اعتماد کے بجائے این جی اوز پر بھروسے کا اظہار ہوتا ہے۔ ڈاکٹر انعام اللہ کے مطابق شریعت خاندان کے امور میں حکومت تک کو مداخلت کی اجازت نہیں دیتی جبکہ اس قانون کی رو سے کسی متاثرہ شخص کی بنیادی سہولت کار کوئی این جی او ہوگی جو اس بل کے ایکٹ بننے کے بعد اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرنا شروع کردے گی۔ انہوں نے کہا کہ اگر کوئی شوہر اپنی بیوی کو بتاتا ہے کہ وہ دوسری شادی کرنا چاہتا ہے یا اسے طلاق کی دھمکی دیتا ہے تو یہ بھی ایک جرم تصور کیا جائے اور اگر عدالت میں ایسی کوئی بات ثابت ہوجاتی ہے تو پھر اسے اپنا گھر چھوڑنا پڑے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس قانون میں ایک بوائے فرینڈ اور گرل فرینڈ کا تعلق رشتہ داری کے زمرے میں آئے گا۔ ڈاکٹر انعام اللہ نے بتایا کہ وزیر اعظم کے مشیر بابر اعوان کا وہ خط اسلامی نظریاتی کونسل کو نہیں ملا ہے جس میں انہوں نے اسپیکر قومی اسمبلی سے اس قانون پر کونسل کی رائے لینے کا کہا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ حکومت اس معاملے میں اسلامی نظریاتی کونسل کو کوئی اہمیت دینے کے موڈ میں نظر نہیں آ رہی۔ اس سوال کے جواب میں کہ کونسل مذکورہ قانون پر اپنی سفارشات کب جمع کرائے گی انہوں نے کہا کہ ویسے تو جہاں تک کورم کا تعلق ہے وہ تو پورا ہے لیکن کونسل اس وقت مکمل کہلائے گی جب اس میں دو جج صاحبان اور ایک خاتون رکن کا تقرر ہوجائے گا۔ ڈاکٹر انعام اللہ نے کہا کہ ان رسمی کارروائیوں کے بعد اسلامی نظریاتی کونسل کا اجلاس بلایا جائے گا جس میں اس قانون پر سفارشات کی منظوری دی جائے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ کونسل نے حکومت کو خالی نشتوں کے حوالے سے آگاہ کردیا ہے لیکن اس حوالے سے تاحال کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ گھریلو تشدد بل 19 اپریل 2021 کو قومی اسمبلی میں پاس ہوا تھا جسے بعد میں سینیٹ نے چند ترامیم کے بعد منظور کرلیا تھا۔ ان ترامیم کی منظوری اب قومی اسمبلی میں لی جائے گی اور پھر اس پر صدر پاکستان دستخط کریں گے جس کے بعد یہ بل باقائدہ قانون کی حیثیت اختیار کرلے گا۔