افغان طالبان نے سوشل میڈیا محاذ پربھی مورچے سنبھال لیے

افغان طالبان کئی دہائیوں سے عسکری کارروایوں میں مصروف ہیں اور اپنے سخت نظریات کی وجہ سے عالمی میڈیا کے زینت بنتے رہتے ہیں لیکن جہاں تک سوشل میڈیا کا تعلق ہے تنظیم کے سربراہان و کارکنان اب تک اس سے قدرے دور ہی نظر آتے تھے لیکن اب صورتحال تبدیل ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ امریکا کے افغانستان آنے اور خطے میں انٹرنیشنل اداروں کی جانب سے علاقائی زبانوں میں نشریات کے آغاز کے بعد اب طالبان نے بھی دور جدید کے تقاضوں کو محسوس کرتے ہوئے اپنے باقاعدہ میڈیا سیل بنا لیے ہیں جن کے ذریعے ملکی اور غیرملکی صحافیوں کو طالبان کی کارروائیوں اور ان کے موقف سے آگاہ کیا جا رہا ہے۔ اپنے دور حکومت میں میڈیا پر پابندی کے لیے مشہور افغان طالبان نے اب میڈیا کی بدلتی ہوئی شکل کو قبول کرنے اور اس کا جدید انداز میں مقابلہ کرنے کے لیے تیاری کرلی ہے۔ اس میڈیم کے ذریعے صحافیوں سے روابط بڑھانے سمیت طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد اپنے ٹویٹر اکاؤ نٹ پر عسکریت پسندوں کی کارروائیوں کی تازہ ترین خبریں بھی ٹویٹ کرتے ہیں۔ افغان طالبان کے قطر میں دفتر کھولنے کے بعد اس کے ترجمانوں اور مذاکراتی ٹیم نے تواتر کے ساتھ انٹرویوز بھی دینے شروع کیے مگر سوشل میڈیا پر ان کی حامیوں کے تعداد نہ ہونے کے برابر تھے۔ پچھلی ایک دہائی سے افغانستان میں موجود جمہوریت پسند اور طالبان مخالف سوچ کے حامل افراد تو سوشل میڈیا پر متحرک رہتے ہی ہیں مگر امریکی انخلاء کے اعلان اور گزشتہ چند ہفتوں سے افغان طالبان کے ہم خیال یا مبینہ طور پر سوشل میڈیا سیل کے کارندے کافی متحرک دکھائی دے رہے ہیں اور طالبان کی فتوحات اور لمحہ بہ لمحہ کارروائیوں سے افغان عوام کو آگاہ کیا جارہا ہے۔ سوشل میڈیا پر گردش کرتی ویڈیوز سے یہ ظاہر ہورہا ہے کہ طالبان کے تمام یونٹس میں سوشل میڈیا ٹیم کے لوگوں کو خصوصی طور پر یہ ڈیوٹیاں تفویض کی گئی ہیں کیوں کہ اپلوڈ ہونے مواد سے ایسا بلکل نہیں لگتا کہ یہ کام کسی منصوبہ بندی کے بغیر کیا جارہا ہے۔ طالبان میڈیا ونگ نے ایک غیرملکی خبررساں ادارے کو بتایا تھا کہ وہ جدید ٹیکنالوجی کے خلاف نہیں ہیں کیوں کہ ایک تو یہ وقت کی ضرورت ہے اور دوسرے اس کا استعمال اسلامی شریعت کے منافی بھی نہیں۔ عام تاثر یہ ہے کہ افغان طالبان اور افغان حکومت اپنے جانی نقصان کم اور دوسروں کے زیادہ بتاتے ہیں لیکن مبصرین کا خیال ہے حکومت کے مقابلے میں طالبان اپنی کارروائیوں کی تفصیل قدرے درست بتاتے ہیں۔ طالبان کے حوالے سے ایک یہ تاثر بھی ہے کہ وہ زیادہ تر تصدیق شدہ معلومات جاری کرتے ہیں۔ اس بارے عالمی ماہرین کا خیال ہے کہ طالبان کو اس بات کا بخوبی اندازہ ہوگیا ہے کہ مبالغے کے مقابلے میں سچائی بیان کرنے کا اثر زیادہ ہوتا ہے۔ طالبان میڈیا سیل 5 زبانوں میں خبریں جاری کرتا ہے جس میں پشتو، اردو اور انگریزی شامل ہیں اور اس مقصد کے لیے درجنوں رضا کار اپنی خدمات پیش کرتے ہیں۔ سماء ڈیجیٹل نے طالبان کے طریقہ کار میں دیکھی جانے والی اس جدت کے حوالے سے پاکستان میں اوپن سورس انٹیلی جنس اسٹڈیز کے بین الاقوامی معیارات کے فروغ کے لیے کام کرنے والے ادارے کے ڈائریکٹر ذکی خالد کی رائے حاصل کی۔ ان کا بھی یہی کہنا تھا کہ افغان طالبان پہلے اس قسم کے بیانیے کی جنگ میں حصہ نہیں لیتے تھے اور یہ طریقہ داعش جیسی تنظمیں اپناتی تھیں لیکن اب طالبان بھی اس انفارمیشن وار کا حصہ بن گئے ہیں۔ طالبان کی جانب سے سوشل میڈیا کے استعمال کے مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے ذکی خالد نے کہا کہ ان کا ایک مقصد تو عوام تک اپنا بیانیہ پہنچانا ہے اور دوسرا اہم مقصد امریکا اور نیٹو اتحاد کے اس بیانیے کو غلط ثابت کرنا ہے کہ وہ افغانستان سے کامیاب ہوکر نکل رہےہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ افغان طالبان دنیا تک اپنا موقف پہنچانا چاہتے ہیں کہ افغان جنگ کے اصل فاتح وہ خود ہیں۔ ذکی خالد کا کہنا تھا افغان طالبان اور ان کے سپورٹرز آج کل سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کررہے ہیں اور بعض اوقات تو اپنا ہیش ٹیگ بھی چلاتے ہیں۔ طالبان نے اپنے دور حکومت میں میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لیے مختلف حربے استعمال کیے تھے۔ اس وقت زیادہ تر غیرملکی صحافیوں نے افغانستان چھوڑا تھا جبکہ مقامی صحافیوں کو بھی فرائض کی انجام دہی میں مشکلات کا سامنا رہا۔ امریکی انخلاء کے بعد اس بات کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ طالبان کابل پر دوبارہ برسراقتدار آسکتے ہیں۔ اب ایسی صورت میں صحافت سے وابستہ لوگوں کا کیا بنے گا یہ تو آنے والے وقت ہی بتائے گا تاہم طالبان ترجمان کئی بار کہہ چکے ہیں کہ طالبان کا ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے کہ وہ میڈیا اداروں کو بند کر دیں لیکن وہ ان کے لیے اسلام کے شرعی اصولوں کے تحت ضابطہ اخلاق بنائیں گے۔ برسراقتدار آنے کے بعد طالبان کا انسانی حقوق اور خواتین کے کام کاج اور تعلیم سمیت میڈیا کے لیے رویہ کیا ہوگا اس کا اندازہ تو بعد میں ہی ہوسکے گا لیکن فی الوقت تو وہ مین اسٹریم میڈیا کے ساتھ سوشل میڈیا پر بھی کافی متحرک ہیں اور اپنے سوشل میڈیا سیل کی باقائدہ تصاویر بھی جاری کی ہیں جس کے بارے میں ماہرین کا خیال ہے کہ طالبان کا ایسا کرنے کا مقصد اپنی نفسیاتی برتری ظاہر کرکے جنگ میں جلد سے جلد کامیابی حاصل کرنا ہے۔
کیا سوشل میڈیا اپنانے والے یہ عسکریت پسند میڈیا کو آزادی بھی دے پائیں گے؟ افغان امور کے ماہر تجزیہ کار رستم شاہ مہمند نے سماء ڈیجیٹل سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سوشل میڈیا پر افغان طالبان کے متحرک ہونے کا مقصد صرف عام آدمی تک اپنا پیغام پہنچانا اور نفسیاتی جنگ میں اپنی برتری ثابت کرنا ہے اس کے علاوہ طالبان سے یہ توقع کرنا عبث ہے کہ وہ افغانستان میں اپنی حکومت قائم کرنے میں کابیابی کی صورت میں بھی سوشل میڈیا یا مین اسٹریم میڈیا کو آزادی دینا پسند کریں گے اور اظہار رائے پر کوئی پابندیاں عائد نہیں کریں گے۔ رستم شاہ مہمند نے کہا کہ افغان طالبان کے موجودہ عمل سے تو صرف اتنا ثابت ہوتا ہے کہ انہیں سوشل میڈیا کی افادیت کا اندازہ ہوچکا ہے لیکن وہ عام لوگوں کو بھی اس کے استعمال کی آزادی دیں گے اس بات کا امکان بہت کم ہے۔ افغان طالبان کی فتوحات پر تبصرہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس وقت جنگ کے میدان میں طالبان کو برتری حاصل ہے اور افغان آرمی مسلسل پسپا ہو رہی ہے۔ رستم شاہ مہمند کا کہنا تھا کہ افغان آرمی کے پاس اسلحے کی کمی نہیں لیکن ان کا مورل اس وقت بلکل ڈاؤن ہوگیا ہے جس کا طالبان بھرپور فائدہ اٹھار ہے ہیں اور اس وقت وہ نفسیاتی جنگ میں افغان حکومت پر بھاری ہیں۔ اس حوالے سے ذکی احمد کی رائے تھوڑی مختلف ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ فی الوقت تو یہ بات وثوق سے نہیں کہی جاسکتی کہ افغان طالبان اقتدار میں آنے کی صورت میں میڈیا کو آزادی دیں گے لیکن افغان میڈیا گزشتہ 10 سال میں اتنا مضبوط ہوچکا ہے کہ اسے روکنا طالبان کے لیے اب تقریباً ناممکن ہوگا اور اس بات کا امکان ہے کہ ایسی کسی صورتحال میں میڈیا اپنے دفاتر افغانستان سے کہیں باہر منتقل کرلے اور اپنا کام جاری رکھے۔ انہوں نے کہا کہ اس بات کا امکان کم ہے کہ وہ روایتی میڈیا یا سوشل میڈیا پر مکمل طور پر پابندی لگادیں کیوں کہ اب انہیں دنیا پر یہ بھی ثابت کرنا ہے کہ وہ ماضی سے مخلتف اور دنیا کے لیے قابل قبول ہیں۔
ذکی احمد کا کہنا ہے کہ اس بات کے زیادہ امکانات نہیں کہ طالبان برسر اقتدار آکر سوشل میڈیا پر پابندیاں لگائیں گے کیوں کہ اس صورت میں تو ان کا دنیا سے رابطہ ہی منقطع ہوجائے گا جو ان کے لیے مشکلات کا سبب بنے گا۔
سوشل میڈیا کمپنیاں طالبان کی سرگرمیوں کو بند کیوں نہیں کر رہیں؟ طالبان کی سوشل میڈیا پر سرگرمیاں زور و شور سے جاری ہیں تاہم اس حوالے سے سوشل میڈیا کمپنیوں نے اب تک کوئی قدغن نہیں لگائی ہے۔ اس حوالے سے کیے گئے سوال کے جواب میں ذکی احمد کا کہنا تھا کہ اکثر سوشل میڈیا کمپنیاں امریکی قوانین کی پابند ہیں اور جن تنظمیوں پر پاکستان میں پابندی ہے ان کی سوشل سائٹس بھی فعال ہیں۔ ذکی احمد نے کہا کہ اگر تو طالبان صرف اپنے بیانیے اور اطلاعات کے لیے ان پلیٹ فارم کا استعمال جاری رکھتے ہیں تو ان پر کوئی قدعن نہیں لگے گی ہاں اگر وہ قتل غارت بھی دکھانا شروع کردیں گے تو پھر دوسروں کی طرح انہیں بھی اس کی اجازت نہیں مل سکے گی۔