افغانستان میں طالبان کی حکومت آئی توسرحدیں بندکردینگے،عمران خان

وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ ہم جمہوری حکومت کو افغانستان میں تسلیم کرتے ہیں، اگر طالبان افغانستان میں برسر اقتدار آئے تو پاکستان اپنی ملحقہ سرحدیں بند کردے گا۔
افغانستان
امریکی اخبار نیویارک ٹائمز سے گفتگو میں وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ پاکستان اب اس پوزیشن میں ہے کہ اپنی سرحدیں بند کرسکتا ہے۔ ہم نے پاک افغان بارڈر پر باڑ لگانے کا 90 فیصد کام مکمل کرلیا ہے۔ اگر امریکی انخلا کے بعد طالبان افغانستان میں حکومت میں آتے ہیں تو ہم اپنی سرحدیں بند کردیں گے۔ بات کو آگے بڑھاتے ہوئے وزیراعظم نے مزید واضح کیا کہ پہلی بات کہ ہمیں اس مسئلے میں نہیں پڑنا اور دوسرا پاکستان ایک بار پھر افغان مہاجرین کا بوجھ اٹھانے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
طالبان
ایک سوال کے جواب میں کہ کیا آپ طالبان حکومت کو ماننے گے؟ جس پر پاکستانی وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان صرف ایسی حکومت کو ماننے گا، جو افغان عوام کی منتخب کی گئی ہو، اب یہ افغان عوام پر منحصر ہے کہ وہ کس کا انتخاب کرتے ہیں۔ طالبان نے اگر فوجی فتح کا راستہ اختیار کیا تو طویل خانہ جنگی چھڑ سکتی ہے جس سے ہم بھی متاثر ہوں گے۔ پاکستان نے طالبان پر اپنا زیادہ سے زیادہ اثر و رسوخ استعمال کیا۔ پاکستان ان تین ممالک میں سے ایک ہے جنہوں نے 1996ء کے بعد طالبان کو تسلیم کیا۔
امریکی صحافی کی جانب سے فوجی اور سیکیورٹی تعلقات پر سوال کیا گیا تو وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ ہمیں نہیں معلوم کہ امریکی انخلا کے بعد کا افغانستان کیسا ہوگا ؟ہمیں نہیں اندازہ کے امریکی افواج کے مکمل انخلا کے بعد فوجی اور سیکیورٹی تعلقات کیسے ہونگے؟ فی الحال ہم سب کی توجہ ایک جانب مرکوز ہے اور وہ یہ ہے کہ افغانستان کے مسئلہ کا سیاسی حل تلاش کیا جائے کیوں کہ پاکستان افغانستان میں کسی قسم کی سول جنگ نہیں چاہتا ہے اور مجھے یقین ہے کہ امریکا بھی ایسا نہیں چاہئے گا۔
وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان نے طالبان کو امریکا کے ساتھ مذاکرات پر مجبور کیا تھا لیکن امریکا نے انخلا کی تاریخ دی تو طالبان پر ہمارا کنٹرول ختم ہو گیا۔ ہم چاہتے ہیں امریکی انخلا سے پہلے افغانستان کا سیاسی حل نکل آئے۔
امریکا
پاک امریکا تعلقات پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان امداد کے بدلے ہر وہ کام کرے جو امریکا کہے۔ امریکا کی جنگ میں پاکستان کو 70 ہزار جانوں اور 150 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ پاکستانیوں کو لگتا ہے کہ وہ امریکا سے تعلقات کی بھاری قیمت ادا کر چکے ہیں۔ پاکستان امریکا کے ساتھ مہذب تعلقات کا خواہاں ہے۔ نائن الیون کے بعد یہ تعلق یکطرفہ تھا، امریکا چاہتا تھا کہ پاکستان امداد کے بدلے اس کی بات مانے۔ پاکستان کا اپنے ہمسایہ ملک بھارت کے مقابلہ میں امریکا سے زیادہ قریبی تعلق رہا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکا کے ساتھ شمولیت اختیار کی، اب جب کہ امریکا افغانستان سے واپس جا رہا ہے پاکستان ایک بہتر تعلق کا خواہاں ہے، جیسا کہ قوموں کے مابین ہوتا ہے۔
پاک امریکا تعلقات کے حوالہ سے مزید وضاحت کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان ایسے تعلقات کا خواہاں ہے جیسے امریکا اور برطانیہ یا امریکا اور بھارت کے مابین اس وقت قائم ہیں، ہم ایسا تعلق چاہتے ہیں جو برابری کی سطح پر ہو۔ بدقسمتی سے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران یہ تعلق برابر کا نہیں تھا۔ پاکستان نے امریکا کیلئے جو کچھ کیا اس کی اسے انسانی جانوں کی صورت میں بھاری قیمت چکانا پڑی، پاکستان نے اس جنگ میں 70 ہزار جانوں کی قربانی دی اور ملکی معیشت کو اس سے 150 ارب ڈالر کا نقصان پہنچا، دہشت گردی کے خلاف جنگ کی وجہ سے خودکش حملے اور ملک میں جگہ جگہ بم دھماکے ہوئے۔
وزیراعظم نے کہا کہ یہاں سے مسئلے کا آغاز ہوا، امریکا نے پاکستان سے مزید توقعات وابستہ کئے رکھیں اور بدقسمتی سے پاکستانی حکومتوں نے وہ کرنے کی کوشش کی جس کی وہ صلاحیت نہیں رکھتی تھیں۔ دونوں ملکوں کے مابین اعتماد کا فقدان تھا اور پاکستانی عوام نے یہ سمجھا کہ انہوں نے امریکا کے ساتھ تعلق کی بڑی بھاری قیمت چکائی ہے اور امریکا نے یہ سمجھا کہ پاکستان نے کافی کچھ نہیں کیا لہٰذا اس طرح سے یہ ایک یکطرفہ تعلق تھا۔ ہم ایک دوسرے کیساتھ تجارتی تعلقات بڑھانا چاہتے ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان مستقبل میں اعتماد اور مشترکہ مفادات پر مبنی تعلقات ہونے چاہیں۔ پاکستان مستقبل میں امریکا کے ساتھ معاشی تعلقات چاہے گا۔
انہوں نے کہا کہ ریاستوں کے مابین تعلق مشترکہ مفادات کی بنیاد پر ہوتا ہے، پاکستان زیادہ تر نوجوان آبادی پر مشتمل 22 کروڑ لوگوں کا ملک ہے جو کہ مستقبل کیلئے ایک لحاظ سے تزویراتی مقام کا حامل ہے، اگر ہمارا بھارت کے ساتھ تعلق کسی مرحلہ پر بہتر ہوتا ہے جس کیلئے میں پرامید ہوں کہ ہو گا لہٰذا پاکستان کے ایک طرف سب بڑی مارکیٹوں میں سے ایک مارکیٹ موجود ہے اور دوسری جانب چین ہے، اس طرح ہمارے اطراف میں دو بڑی منڈیاں واقع ہیں اور پھر توانائی راہداریاں بھی موجود ہیں جن سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔
پاک افغان تعلقات
افغانستان کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ اس سال کے اوائل میں افغان صدر اشرف غنی سے ملاقات کیلئے افغانستان کا دورہ کیا اور افغان حکومت کو مکمل حمایت کی یقین دہانی کرائی اور انہیں بتایا کہ ہم امن تصفیہ کیلئے ہر ممکن کردار ادا کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ ہماری انٹیلی جنس ایجنسیوں اور افغان انٹیلی جنس ایجنسیز، ہمارے آرمی چیف، افغان صدر اور ان کے آرمی چیف کے درمیان متواتر ملاقاتیں ہوتی رہتی ہیں، اس لئے ہمارے درمیان مستقل رابطے جاری رہتے ہیں، بدقسمتی سے افغان حکومت میں ابھی تک یہ تاثر ہے کہ پاکستان مزید اقدامات کرسکتا ہے جس کے بارے میں، میں یہ کہنا چاہوں گا کہ یہ ہمارے لئے بہت مایوس کن ہے، وہ کئی سال کے بعد ہم پر ذمہ داری ڈال رہے ہیں اور یہ کہ وہ خود کسی تصفیہ پر نہیں پہنچے ہیں۔
چین
دنیا کی دو بڑی مارکیٹیں چین اور بھارت پاکستان کے ہمسایہ ہیں۔ ہم افغانستان کے راستے وسطی ایشیا تک رسائی چاہتے ہیں۔ سمجھ نہیں آتا آخر چین اور امریکا آپس میں دوستانہ تعلقات کیوں استوار نہیں کرتے۔ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ ایک عجیب بات ہے کہ امریکا اور چین ایک دوسرے کے حریف کیوں بنیں گے، اگر یہ دونوں بڑی طاقتیں، دونوں بڑی اقتصادی طاقتیں ایک دوسرے کے ساتھ تجارت کرتی ہیں تو اس کا دنیا کو فائدہ ہوگا اور اس کا ہم سب کو بھی فائدہ ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں چین اور امریکا دونوں کے ساتھ تعلقات رکھنے چاہئیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان کے چین کے ساتھ دیرینہ تعلقات ہیں، چین پاکستان کا ایک اچھا دوست ہے، چین نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بعد اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران پاکستان کا ساتھ دیا، جب ہمارے قرضے بڑھ گئے اور یہ اس وقت ہوتا ہے جب ایک ملک حالت جنگ میں ہو، تجارتی سرگرمیاں منجمد ہوگئیں، صوبے اور قبائلی علاقے جنگ سے تباہ ہوئے اور ایسے موقع پر چین پاکستان کی مدد کو آیا۔
انہوں نے کہا کہ امریکا کیوں یہ سوچے گا کہ بھارت چین کے خلاف اس کے دفاع کیلئے ڈھانچے کے طور پر کردار ادا کرے گا، اگر بھارت اپنے لئے کوئی ایسا کردار چنتا ہے تو یہ اس کے لئے نقصان دہ ہو گا کیونکہ بھارت کی چین کے ساتھ تجارت دونوں بھارت اور چین کیلئے فائدہ مند ہے۔
بھارت اور کشمیر
پاک بھارت تعلقات سے متعلق انہوں نے کہا کہ نریندر مودی کا ہندوتوا کا نظریہ ہمارے اس کی راہ میں رکاوٹ ہے، میں نے تو حلف اٹھاتے ہی بھارت کے ساتھ تعلقات میں بہتری کی بات کی تھی۔
بھارت کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ تمام پاکستانیوں کے برعکس میں بھارت کو زیادہ جانتا ہوں، کرکٹ جو ایک بڑا کھیل ہے اس کی وجہ سے میں نے بھارت سے محبت اور احترام پایا ہے، میں نے جب وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالا تو میں نے سب سے پہلے بھارتی وزیراعظم مودی کو کہاکہ اقتدار میں میرے آنے کا میرا بڑا مقصد پاکستان سے غربت کاخاتمہ ہے اور اس کیلئے بہتر راستہ یہ ہوگا کہ بھارت اور پاکستان معمول کے تجارتی تعلقات قائم کریں جس سے دونوں ملکوں کو فائدہ ہو گا، ہم نے اس کے لئے کوشش کی لیکن اس کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہندو قوم پرست آر ایس ایس کا نظریہ ہے جس سے نریندر مودی تعلق رکھتے ہیں جو اس کی راہ میں ایک دیوار بن کر کھڑی ہوئی ہے۔ انہوں نے کہاکہ اگر بھارت میں کوئی اور قیادت ہوتی تو وہ اس کے ساتھ ایک اچھا تعلق قائم ہوگیا ہوتا اور ہم نے تمام اختلافات کو بات چیت کے ذریعے حل کرلیا ہوتا۔
کشمیر کی جوں کی توں حالت کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ بھارت کیلئے تباہ کن ہوگا کیونکہ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ یہ تنازعہ برقرار رہے گا اور جتنا عرصہ کشمیر کا تنازعہ تصفیہ طلب رہتا ہے، یہ پاکستان اور بھارت کے درمیان معمول کے تعلقات میں رکاوٹ رہے گا۔