آزاد کشمیر انتخابات: خواتین کی کثیر تعداد میدان میں

پونچھ 3،4 موروثی خاندانوں کے پاس ہی رہنےکا امکان

آزاد جموں و کشمیر قانون ساز اسمبلی کے انتخابات کا پہلا مرحلہ 20 جون 2021 کو مکمل ہو گیا جس کے دوران 45 حلقہ انتخابات میں 984 امید واروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے۔ آزاد کشمیر کے 33 حلقوں میں 825 جب کہ پاکستان میں مقیم مہاجرین جموں و کشمیر کی 12 نشستوں کے لیے 159 امیدوار انتخابی دنگل میں اترے ہیں۔ سب سے زیادہ 44 امیدواروں نے ایل اے26 نیلم 2 سے اور سب سے کم 4 کاغذات نامزدگی ایل اے 37 جموں 4 میں جمع کروائے گئے۔ مہاجرین کے انتخابی حلقے خاصے بڑے ہیں جس کی وجہ سے ووٹروں کے ساتھ رابطہ کرنا دشوار ہوتا ہے اس لیے ان حلقوں سے کم امید وار میدان میں اترتے ہیں۔ یہ پہلا موقع ہے کہ آزاد کشمیر کے انتخابات میں خواتین کی کثیر تعداد براہ راست انتخابی عمل میں شامل ہوئی ہے۔ نبیلہ ارشاد جو ایک پارٹی کی سربراہ ہیں اپنے حلقہ میں انتخابی مہم چلا رہی ہیں بلکہ پارٹی امیدواروں کے حلقوں میں بھی عوامی اجتماعات سے خطاب کر رہی ہیں۔ ایل اے 22 پونچھ 5 سے مسز شاہدہ صغیر نے پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر کاغذات ریٹرننگ آفیسر تھوراڑ کے دفتر میں جمع کرائے۔ سردار صغیر چغتائی کی 11 جون کو آزاد پتن حادثے میں وفات کے بعد پی ٹی آئی نے ان کی بیوہ کو ہونچھ حلقہ 5 کے لیے امیدوار نامزد کیا ہے۔ واضع رہے کہ صغیر چغتائی کی میت دو دن قبل منگلہ جھیل سے ملی تھی اور جب کاغذات جمع کرانے کی آخری تاریخ تھی اسی روز راولاکوٹ میں ان کی نماز جنازہ ادا کی گئی۔ صغیر چغتائی مسلم کانفرنس کے ٹکٹ پر گزشتہ 5 سال آزاد کشمیر میں ممبر اسمبلی رہے۔ آئندہ انتخابات میں انہیں پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنا تھا لیکن بدقسمتی سے 11 جون صبح 8 بجے اسلام آباد جاتے ہوئے آزاد پتن کے قریب ان کی گاڑی دریا جہلم میں ڈوب گئی اور 9 دن بعد ان کی اور ان کے ڈرائیور کی لاشیں منگلا جھیل جب کہ ان کے سیکرٹری کی لاش دو دن قبل ڈوڈیال سے ملی تھی۔ پی ٹی آئی نے اب ٹکٹ ان کی بیوہ شاہدہ صغیر کو جاری کیا ہے جن کے کاغذات آخری دن جمع کرائے گئے۔ ذرائع کے مطابق شاہدہ صغیر کی غیر موجودگی میں سردار صغیر خان چغتائی مرحوم کے صاحبزادے سردار احمد صغیر خان کارکنان کے ہمراہ والدہ کی انتخابی مہم چلائیں گے۔ اس مرتبہ سب سے زیادہ نقصان مسلم لیگ ن کو ہوا جس کے وزیر جنگلات میر اکبر خان، وزیر ورکس چوہدری عزیز سمیت کئی ممبران اسمبلی اور کابینہ پارٹی چھوڑ کر پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ یہ الیکٹیبل کہلاتے ہیں اور اپنے اپنے حلقوں میں خاصا اثر رکھتے ہیں۔ پی ٹی آئی کو توقع ہے کہ الیکٹیبل کی مدد سے انتخابات جیت کر نیا آزاد کشمیر بنائے گی۔ اسی لیے پارٹی نے مخلص اور پرانے نظریاتی کارکنوں کو ٹکٹ دینے کے بجائے الیکٹیبل کو توڑنے کو اہمیت دی۔ سردار محمد ابراہیم خان کے صاحبزادے سردار خالد ابراہیم خاں مرحوم کی آزاد کشمیر پیپلزپارٹی نے بھی اس مرتبہ زیادہ حلقوں سے امید وار کھڑے کیے ہیں ۔تاہم ایک سنئیر لیڈر اور خالد ابراہیم خاں کی بااعتماد سیاسی ساتھی نبیلہ ارشاد نئی پارٹی کے ساتھ میدان عمل میں اتری ہیں جس سے خالد ابراہیم خاں کے کارکنان تقسیم ہو گئے ہیں۔ کے ایچ خورشید کی جموں و کشمیر لبریشن لیگ بھی اس مرتبہ نئے جذبے کے ساتھ انتخابات میں حصہ لے رہی ہے۔ اس کے امیدواروں میں کوئی بھی الیکٹیبل نہیں نہ کوئی سرمایہ دار ہے بلکہ تمام امیدوار کے ایچ خورشید کے کارکن ہیں جو سن 1980 کی دہائی میں کے ایچ خورشید کے ساتھ رہے۔ یہ پختہ نظریاتی کارکن ہیں جو چاہتے ہیں کہ کے ایچ خورشید کا نام زندہ اور یہ نظریہ باقی رہے کہ آزادی کشمیر کے لیے آزاد کشمیر کو ڈوگرہ کی جانشین حکومت کے طور تسیلم کرنا ضروری ہے۔ سردار عبدالقیوم خان کی مسلم کانفرنس بھی آخری ہچکیاں لے رہی ہے۔ سردار سکندر حیات خان کی واپسی پر سردار عتیق احمد خان کو کچھ حوصلہ ہوا ہے ورنہ وہ صغیر چغتائی کے پی ٹی آئی میں جانے کے بعد اکیلے رہ جاتے۔ آزاد کشمیر کے تینوں بڑے سیاست دانوں کی باقیات اپنی سی کوششیں کر رہی ہیں جب کہ پاکستان کی فرنچائز سر چڑھ کر بول رہی ہیں۔ عتیق احمد خان اپنے آبائی حلقہ دھرکوٹ اور خالد ابراہیم کے صاحب زادے راولاکوٹ سے انتخابات لڑ رہے ہیں۔ توقع ہے کہ عتیق احمد خان کو جیتنے میں کوئی مشکل نہیں ہو گی۔ تاہم حسن ابراہیم خاں کو سابق صدر سردار یعقوب خان کے ساتھ سخت مقابلے کا سامنا ہے۔ سردار یعقوب خان اب تیسری نسل کے نمائندے سے مقابلہ کر رہے ہیں۔ اس سے قبل وہ سردار محمد ابراہیم خان، سردار خالد ابراہیم خاں کے مدمقابل انتخابات لڑے اور کبھی جیتے بھی تھے۔ گو کہ سردار محمد یعقوب خان کا حلقہ انتخابات راولاکوٹ شہر سے الگ ہو چکا لیکن سردار صاحب پونچھ 3،4 سے پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ ہولڈر دونوں حلقوں میں مضبوط امیدوار ہیں۔ پیپلز پارٹی کے ایک پرانے کارکن اور پی ایس ایف کے سابق صدر سردار عابد حسین عابد پارٹی میں ٹکٹ کے امیدوار تھے ۔ ٹکٹ نہ ملنے پر آزاد حثیت سے الیکشن میں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی میں سیاست، نظریات اور جدوجہد ہار چکی ہے اور سرمایہ تعلقات جیت گئے ہیں۔ اب دیکھتے ہیں عوام کیا فیصلہ کرتے ہیں پارٹی کے فیصلے کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں یا احتجاجی کیمپ میں بیٹھتے ہیں۔ سردار یعقوب خان عوامی سیاست کے ماہر ہیں وہ ڈور ٹو ڈور نہیں بلکہ چولہا ٹو چولہا سیاست میں پی ایچ ڈی ہیں۔ وہ گھر گھر عمر رسیدہ خواتین و حضرات کو نہ صرف جانتے ہیں بلکہ نام کے ساتھ پکارتے ہیں۔ ان حلقوں میں انہوں نے عوامی اور انتخابی سیاست کو نیا رنگ دیا ہے۔ ماسی، چچی، بے بے، ددھی، خالہ پکارنے کا فن کسی بھی دوسرے امیدوار کے پاس نہیں۔ صرف انتخابات کے دنوں میں ہی نہیں عام حالات میں بھی وہ اکثر گھر گھر بسیرا کرتے ہیں۔ اپنے سیاسی مخالفین کی غمی خوشی میں اس کے گھر پہنچنے میں انہیں کوئی دشواری نہیں ہوتی۔ اس لیے ان کو شکست دینے کے لیے کسی بڑے قومی اتحاد اور سخت محنت کی ضرورت ہے۔ البتہ کامیابی کے بعد جب وہ ایک حلقہ چھوڑیں گے تو ضمنی انتخابات میں ان کے لیے مشکلات ہوں گی۔ واقف کار بتاتے ہیں کہ دونوں حلقوں میں کامیابی کے بعد وہ کھائیگلہ کا حلقہ اپنی صاحبزادی یا صاحبزادے کے لیے خالی کریں گے۔ لیکن اطلاع ہے کہ اس صورت حال میں ان کے قریبی ساتھی ان سے بغاوت کریں گے جس سے ان کی پوزیشن کمزور ہو گی اور خالد ابراہیم خاں کے صاحبزادے حسن ابراہیم خاں اس حلقے سے ضمنی انتخابات میں کامیاب ہو کر اسمبلی میں پہنچ جائیں گے۔ میری سوچ کے مطابق پونچھ 3 اور 4 دونوں موروثی سیاست دانوں کے پاس ہی رہیں گے خواہ یہ فیصلہ 25 جولائی کو ہو یا ضمنی انتخابات میں۔ فیصلہ یہی ہے جو عوام کا ہے ۔ باقی لوگ شوق پورا کر لیں نام رہ جائے گا کہ انتخابات میں حصہ لیا تھا۔ بیرسٹر سلطان محمود اور راجہ فاروق حیدر خان کی کامیابی یقینی ہے۔ راجہ فاروق حیدر خان خان اگر چاہتے ہیں کہ ان کی جماعت فیصلہ کن پوزیشن حاصل کرے تو انہیں جارحانہ انتخابی مہم چلانی ہو گی۔ وہ نوازشریف کو معصوم قراردینے کے لیے نہیں بلکہ سچے کشمیری اور مجاہدین کے ہمدرد کی طور پر ان سب باتوں سے پردہ اٹھانا پڑے گا جو دل میں چھپا رکھی ہیں ۔ ایک دو جلسوں میں بھی کے ایچ خورشید یا ممتاز حسین راٹھور کا رنگ چڑھ گیا تو ان کی طرح آپ کے پاس ہیلی کاپٹر نہیں بلکہ مذاکرات کار آئیں گے۔ اگر مریم بی بی کو بلا کر نواز شریف کا راگ الاپنا شروع کیا تو بہت عرصہ انتظار کرنا پڑے گا ۔ پی ٹی آئی جیتنے کے باوجود بیرسٹر سلطان محمود کو وزیراعظم بننے میں مشکلات درپیش ہوں گی۔

AzadKashmirElection

تبولا

Tabool ads will show in this div

تبولا

Tabool ads will show in this div