بینکوں کے ریئل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری پرپابندی میں نرمی

طلب میں اضافے کے دوران مکانات کی تعمیرمیں اضافہ متوقع

ایک نجی کمپنی میں سینیٹری ورکر کے طور پر کام کرنے والے نیا پاکستان ہاؤسنگ اسکیم کو دیکھ کر بہت پرجوش تھاج جو کمزور طبقے سے تعلق رکھنے والوں ایسے لوگوں کو جن کے پاس اپنا گھر نہیں، کو سستے قرضوں کی پیشکش کرتا ہے۔ اس نے کوشش کرکے ایک ایسا گھر ڈھونڈا جس کی قیمت37 لاکھ روپے تھی تاہم بینک کی کاغذی کارروائی میں کافی وقت لگ گیا۔ جب چند ماہ بعد اس نے گھر سے متعلق دوبارہ معلومات حاصل کیں تو اس کی قیمت 13 فیصد اضافے سے 42 لاکھ روپے تک پہنچ چکی تھی۔

معروف ماہر معاشیات عاطف میاں نے حال ہی میں اس جانب توجہ دلائی تھی کہ سستے قرضوں کی پیشکش سے املاک کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر آپ کسی چیز کو خریدنے کیلئے مصنوعی طریقے سے لوگوں کی قوت خرید بڑھائیں گے تو آپ ساتھ ہی ساتھ اس چیز کی قیمت بھی اضافہ کریں گے، کم شرح سود قیمتوں میں اضافہ کرتا ہے اور جب آپ انہیں مزید قرضہ دیں گے تو وہی گھر جو وہ خریدنا چاہتے ہیں اس کی قیمت میں بھی اضافہ ہوگا۔

لیکن حکومت فیڈرل بورڈ آف ریونیو اور اسٹیٹ بینک کے توسط سے بلڈرز اور ڈیولپرز کو مزید رہائشی یونٹوں کی تعمیر کیلئے سہولت فراہم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس سے بینکوں اور ترقیاتی مالیاتی اداروں (ڈی ایف آئیز) پر دباؤ بڑھ ہے کہ وہ خریداروں اور مالیاتی منصوبوں کو زیادہ سے زیادہ قرض فراہم کرے۔ ایف بی آر نے ایک ایمنسٹی اسکیم بھی متعارف کرائی، جس کے تحت بلڈرز اور ڈیولپرز کو ان منصوبوں میں سرمایہ کاری کی اجازت دی گئی۔

نیا پاکستان ہاؤسنگ پروگرام کے چیئرمین ضیغم محمود رضوی کا کہنا ہے کہ پاکستان میں تقریباً ایک کروڑ 10 لاکھ مکانات کی ضرورت ہے جس میں سالانہ 7 لاکھ کا بتدریج اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ایک سال میں مکانات کی ضرورت میں 7 لاکھ کا اضافہ ہوا تو اگلے سال اس سے بھی زیادہ ہوگا۔

ضیغم رضوی نے مزید کہا کہ اس التواء کی بڑی وجہ بینکوں کی جانب سے رہائشی صنعت کو مالی اعانت میں ہچکچاہٹ ہے۔

انہوں نے بتایا کہ بھارت میں مورٹگیج کا جی ڈی پی میں حصہ 11 فیصد ہے، بنگلہ دیش میں 5 فیصد جبکہ ہمارے ہاں یہ شرح صرف 0.5 فیصد ہے۔

مرکزی بینک نے بینکوں کیلئے رہن کیلئے قرضوں میں توسیع، ڈیولپرز اور بلڈروں کی مالی معاونت کیلئے لازمی اہداف طے کئے ہیں، بینکوں کو اب رہائش اور تعمیراتی سرگرمیوں کی مالی اعانت کیلئے 31 دسمبر 2021ء تک اپنے نجی شعبے کے 5 فیصد قرضے کو برقرار رکھنا ہوگا۔

اسٹیٹ بینک کی جانب سے ہچکچاہٹ کی شکار بینکنگ انڈسٹری کو ان اہداف کے حصول کیلئے کیرٹ اینڈ اسٹک اسکیم بھی متعارف کرائی گئی ہے۔

اسٹیٹ بینک نے اب رئیل اسٹیٹ انویسٹمنٹ ٹرسٹس (REITs) میں بینکوں اور DFIs کی سرمایہ کاری کو آسان بنانے کے کیپیٹل ایڈویکویسی ریگولیشن کے ضوابط میں ترمیم کی ہے۔ اس نے آر ای ٹی آئیز کے یونٹوں میں بینکوں اور ڈی ایف آئیز کی سرمایہ کاری کیلئے لاگو رسک ویٹ 200 سے کم کرکے 100 فیصد تک کردیا ہے۔

آر ای ٹی آئیز ایسی کمپنیاں ہیں جو عوام اور عام اداروں جیسا کہ بینکوں سے فنڈز جمع کرتے ہیں اور اس فنڈ کو سرمایہ کاری کے ذریعے ریئل اسٹیٹ پراپرٹیز پر لگاتے ہیں۔

ایک ذرائع نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ عاطف میاں کا یہ کہنا بالکل درست تھا کہ اگر سستے ہاؤس لون کی پیشکش کی گئی تو اس سے پراپرٹی کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا تاہم یہ اس وقت ہوگا جب سستے قرضوں کی طلب اور فراہمی میں اضافہ ہوگا، مطلب ہاؤسنگ یونٹ پہلے کی طرح محدود ہوں گے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور حکومت کی پالیسی ہمیشہ یہی ہوگی کہ ہاؤسنگ یونٹس کی فراہمی میں اضافہ کیا جائے، جس سے گھروں کی قیمتیں برقرار رہیں گی۔

تعمیراتی سرگرمیوں میں اضافے کے نتیجے میں اس سیکٹر  اور متعلقہ صنعتوں سے جڑے لوگوں کی آمدن میں اضافہ ہوگا۔  جب وہ اس شعبے اور صنعتوں کے ذریعے کمائی کو خرچ کریں گے تو دیگر صنعتوں سے وابستہ لوگوں کو بھی فائدہ ہوگا۔

اسٹیٹ بینک کو توقع ہے کہ بینکوں کے ذریعے سرمایہ کاری ملک کی ریئل اسٹیٹ سیکٹر کی ترقی کو فروغ دے گی۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا اپنے ایک بیان میں کہنا ہے کہ انضباطی اقدامات کی حمایت کرنے والے مالیاتی اداروں کی بڑھتی ہوئی شرکت آر ای آئی ٹی مینجمنٹ کمپنیوں کو نئی آر ای ٹی آئیز شروع کرنے کیلئے بھی حوصلہ افزائی کرے گی، جس سے ہاؤسنگ اور تعمیراتی شعبوں کی ترقی کیلئے حکومت کے ایجنڈے کو مزید فروغ ملے گا۔ مرکزی بینک نے بینکوں کیلئے آر ای آئی ٹیز میں زیادہ سرمایہ کاری کرنے کے ضوابط میں بھی ترمیم کی جس سے اس کی ایکویٹی 10 فیصد سے بڑھا کر 15 فیصد کردی گئی ہے۔

اسٹیٹ بینک نے مزید کہا کہ  کیپیٹل ایڈیکوئٹی ریگولیشن میں ترامیم سے بینکوں کو رئیل اسٹیٹ سیکٹر کیلئے کام کرنیوالی کیپیٹل مارکیٹ میں حصہ ڈالنے کی حوصلہ افزائی ہوگی۔

فی الحال پاکستان اسٹاک مارکیٹ میں صرف ایک آر ای آئی ٹی عارف حبیب ڈولمین آر ای آئی ٹی رجسٹرڈ اور فنکشنل ہے۔

سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کے مطابق گزشتہ 2 سالوں میں 5 نئی آر ای آئی ٹیز نے خود کو رجسٹرڈ کرایا ہے، مجموعی طور پر 10 آر ای آئی ٹیز، ایس ای سی پی میں رجسٹرڈ ہیں جبکہ مزید 2 کمپنیاں رجسٹریشن کے مراحل میں ہیں۔

مکیش اب بھی اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی اسکیم سے فائدہ اٹھا کر پراپرٹی خریدنے کا خواہاں ہے، لیکن وہ مایوس ہے کیونکہ بینک کا عمل تکلیف دہ ہے اور املاک دن بدن مہنگی ہوتی جارہی ہے۔

Naya Pakistan Housing scheme

HOUSE FINANCING

تبولا

Tabool ads will show in this div

تبولا

Tabool ads will show in this div