این اے249 کے نتائج، تبدیلی لانےوالوں کیلئےخود بڑی تبدیلی
قومی اسمبلی کی نشست 249 سے پیپلز پارٹی کے امیدوار قادر خان مندوخیل غیر سرکاری نتائج کے مطابق کامیاب ہوچکے ہیں۔ تمام سروے اور رپورٹ کے برخلاف ان کی کامیابی کسی سرپرائز سے کم نہیں اور ان غیر متوقع نتائج پر تمام ہی جماعتیں سراپا احتجاج ہیں۔ اس بار الیکشن کمیشن سے زیادہ پیپلز پارٹی پر انگلیاں اُٹھائی جارہی ہیں اور کہا جارہا ہے کہ اس نے انتظامیہ کی مدد سے نتائج کو تبدیل کیا ہے۔
مسلم لیگ، تحریک انصاف اور پاک سرزمین پارٹی نے نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے جبکہ مسلم لیگ نے الیکشن کمیشن سے دوبارہ گنتی کی درخواست بھی کی ہے جس کے نتیجے میں قادر مندوخیل کی کامیابی کا نوٹی فکیشن جاری نہ ہوسکا۔ انتخابی نتائج پر بات کرنے سے پہلے بلدیہ ٹاؤن کی آواز بھی سن لی جائے جو دھاندلی اور کامیابی کے نعروں میں دب گئی ہے۔
ایک وقت تھا جب ہر ایک کی زبان پر ’’بلدیہ ‘‘ کا نام ہوتا تھا۔ گیارہ ستمبر 2012 کو ایک فیکٹری میں آگ بھڑک اٹھی تھی، جس میں جھلس کر 260 مزدور ہلاک اور 50 کے قریب زخمی ہو ئے تھے۔ تحریک انصاف نے بھی اس سانحہ پر بہت سیاست کی تھی مگر بدقسمتی سے سانحہ بلدیہ کے متاثرین آج بھی انصاف کے لئے ترس رہے ہیں۔ اس حلقے میں مہاجر آبادی کے ساتھ ساتھ پٹھان، پنجابی ،دیگر قومیتوں اور برادیوںکی بھی کثیر تعداد میں آباد ہے۔جن کا اپنا ووٹ بینک ہے۔ یہ علاقہ انتہائی غریب اور متوسط طبقہ کے لوگوں پر مشتمل ہے۔ بلدیہ ٹاؤن کاشمار کراچی کی ان بستیو ں میں ہوتا ہے جنہیں ہر دور میں نظر انداز کیا گیا۔
یہاں سب سے بڑا مسئلہ پینے کے پانی کا ہے۔ گھر وں میں شاذ و نادر ہی پینے کا پانی آتا ہوگا۔ اکثریت بورنگ کا پانی استعمال کرتی ہے جبکہ یومیہ مزدوری کرنے والے بھی پینے کا پانی خریدنے پر مجبور ہیں۔ لیکن ایسا نہیں ہے کہ یہاں پانی کی قلت ہے۔ پانی وافر مقدار میں موجود ہے مگر سارا پانی فیکٹریوں اور ٹینکر مافیا کو بیچ دیا جاتا ہے۔ اس غیر قانونی کاروبار میں ایک مافیا برسوں سے سرگرم ہے جسے ہر دور میں حکومت کی سپورٹ حاصل رہی ہے۔ یہاں کے دوسرے مسائل کی بات کی جائے تو ان میں صفائی ستھرائی، کچرے کے ڈھیر، ٹرانسپورٹ، گلیوں اور محلوں میں سٹرکوں کی مرمت شامل ہے۔ بجلی کی لوڈ شیڈنگ گرمیوں میں 8 سے 10 گھنٹے تک پہنچ جاتی ہے۔
جب بھی بلدیہ میں انتخابی مہم کا آغاز ہوتا ہے۔ سیاسی جماعتیں اور امیدوار یہی وعدے کرتے نظر آتے ہیں کہ ہم پانی کا مسئلہ کریں گے۔ گھر گھر پانی پہنچائیں گے۔ کچرا اُٹھائیں گے۔ سٹرکیں تعمیر کریں گے۔ سن 2018 کی انتخابی مہم میں فیصل واوڈا کچرے کے ڈھیر پر کھڑے ہوکرعوام کو یقین دلایا کرتے تھے کہ وہ منتخب ہونے کے بعد ان کے مسائل حل کردیں گے۔ مسائل حل ہونا تو دور کی بات ایم این اے منتخب ہونے کے بعد شاید ہی انہوں نے اپنے حلقے کی عوام سے کبھی ملاقات کی ہو۔ اسلام آباد میں مصروفیات کی وجہ سے انہیں اتنا وقت کب ملتا ہوگا کہ وہ اپنے حلقے کی عوام سے کیے گئے وعدوں کو پورا کرتے۔ مذکورہ سیٹ پی ٹی آئی کے فیصل واوڈ اکی جانب سے استعفے کے بعد خالی ہوئی تھی جو سینیٹ انتخابات میں کامیابی کے بعد اس نشست سے مستعفی ہوگئے تھے۔
غیرحتمی اورغیرسرکاری نتائج کے مطابق پیپلز پارٹی کے قادر خان مندوخیل 16,156 ووٹ لے کر کامیاب قرار پائے۔ جبکہ مسلم لیگ کے مفتاح اسمٰعیل 15,473 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے۔ کالعدم ٹی ایل پی کے نذیر احمد 11,125ووٹ لےکر تیسرے، پی ایس پی کے مصطفیٰ کمال 9227 ووٹ لےکر چوتھے، تحریک انصاف کے امجد آفریدی 8,922 ووٹ لے کر پانچویں اورایم کیوایم پاکستان کے محمد مرسلین 7,511 ووٹ لے کر چھٹے نمبر پر ہیں۔
سن 2018 میں اس سیٹ پر سخت مقابلہ ہوا تھا اور امید یہی کی جارہی تھی کہ میاں شہباز شریف کامیاب ہوجائیں گے۔ مگر کراچی سے تحریک انصاف کو کامیاب کرانے کے لیے جو کالی اندھی چلی اُس میں فیصل واوڈا بھی کامیاب قرار پائے۔ وہ صرف 723 ووٹوں سے شہباز شریف کو شکست دے پائے تھے اور اب اس ہی سیٹ سے مسلم لیگ ن کے امیدوار مفتاح اسمٰعیل 683 ووٹوں سے ہار ے ہیں مگر اس بار ان کے مد مقابل تحریک انصاف نہیں بلکہ پیپلز پارٹی کے امیدار تھے۔ اس حلقے میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 3 لاکھ 39 ہزار سے زائد ہے۔ یہ کیسی جمہوریت اور الیکشن کمیشن کے قوانین ہیں کہ سوا تین لاکھ ووٹر میں سے صرف 16 ہزار ووٹ جو کل ووٹ کا 5 فیصد بھی نہیں ۔اس سے زیادہ تو ایک یوسی ناظم ووٹ حاصل کرلیتا ہے۔ اس پر قادر خان مندوخیل پورے علاقے کی نمائندگی کریں گے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ ان نتائج کے بعد انتخابات کو کالعدم قرار دے دیا جاتا۔
گزشتہ 4 انتخابات میں اس سیٹ سے 4 مختلف جماعتوں کے امیدار کامیاب ہوئے۔ اکتوبر 2002 کے انتخابات میں یہ حلقہ ا ین اے 241کراچی ویسٹ (lll )کہلاتا تھا یہاں سے متحدہ مجلس عمل کے محمد لئیق احمد26,813 ووٹ لیکر کامیاب ہوئے جبکہ پیپلز پارٹی کے امیداور کو 6264 ووٹ ملے تھے۔ سن 2013 میں ایم کیو ایم کے اقبال قادری 93,617 ووٹ لیکر کامیاب ہوئے ۔ دوسرے نمبر پر اے این پی کے امیدوار نے 36,236 ووٹ حاصل کیے تھے اور پیپلز پارٹی کو 11,544وو ٹ ملے تھے۔ سن 2018 میں جہاں اس سیٹ سے تحریک انصاف کے فیصل واوڈا نے 35,344 ووٹ اور ان کے مدمقابل میاں شہباز شریف نے 34,626ووٹ حاصل کیے۔ یہ حلقہ کبھی کسی جماعت کا مضبوط گڑھ نہیں رہا مختلف سیاسی جماعتیں یہاں سے کامیاب ہوتی رہی ہیں۔ انتخابات سے قبل مفتاح اسمٰعیل کے کامیاب ہونے کی کافی امید کی جارہی تھی کیوں کہ عوامی نیشنل پارٹی اور جمعیت علما پاکستا ن کے امیدار مفتاح اسمٰعیل کے حق میں دستبردار ہو گئے تھے۔ ضمنی الیکشن عوامی ردعمل ہوتا ہے۔ پی ٹی آئی اپنی چھوڑی ہوئی سیٹ کا دفاع نہ کرسکی۔ یہ پی ٹی آئی کے لیے بڑا جھٹکا ہے۔ ضمنی الیکشن میں تحریک انصاف کو تواتر سےشکست کا سامنا ہے اور اب فیصل واوڈا کی سیٹ پر بدترین شکست۔ تبدیلی سرکار کے لیے خود بڑی تبدیلی ہے۔ عمران خان کو سوچنا پڑے گا اب ایسا کیا کیا جائے کہ سن 2023 کے نتائج اس سے مختلف ہوں۔ جب فیصل واوڈا جیسی سیاسی اور مالی طور پر مضبوط شخصیت اپنے حلقے کے لوگوں کو مطمئن نہیں کرسکی تو پھر بچارے وہ ممبر قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی جنہیں عمران خان سے ہاتھ ملانے کا بھی شرف حاصل نہیں ہوا وہ اپنے علاقے کے لوگوں کی کیا خدمت کریں گے اور انہیں کس طرح مطمئن کریں گے۔ مہنگائی، بے روزگار اور غربت تو ملگ گیر مسائل ہیں مگر عمران خان نے کراچی کے لیے جس پیکج کا اعلان کیا تھا اس پر اب تک عمل درآمد نہیں ہوا۔ انہی کھوکھلے وعدوں کی وجہ سے بلدیہ ٹاؤن سے تحریک انصاف کو شکست نصیب ہوئی ہے اور آئندہ عام انتخابات میں نتائج کچھ زیادہ مختلف نظر نہیں آرہے۔
یہ سیٹ ہارنے سے جہاں تحریک انصاف کو سیاسی طور پر نقصان پہنچا وہیں وہ اس بات سے بھی خوش ہے کہ کم از کم ایک سیٹ ہارنے سے حکومت کے خلاف بننے والا اتحاد پی ڈی ایم اندرونی اختلافات کی وجہ سے مزید کمزور ہوجائے گا۔ اگر ایک سیٹ ہارنے سے اپوزیشن میں دراڑیں اور گہری اور پختہ ہوتی ہیں تو یہ گھاٹے کا سودا نہیں ہے۔ پی ٹی آئی اپنی شکست سے زیادہ اس بات پر بغلیں بجارہی ہے کہ اپوزیشن آپس میں لڑگئی ہے۔
سینٹ میں اپوزیشن لیڈر کے انتخاب پرمسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی میں پہلے ہی رنجش اور اختلافات تھے مگر قادر خان مندوخیل کے ہاتھوں مفتاح اسمٰعیل کی شکست نے مسلم لیگ کو آگ بگولہ کردیا ہے۔ دونوں جماعتوں کے لیڈر ایک دوسرے پر الزام لگارہےہیں۔ ’’ سلیکٹر‘‘ کی جو اصطلاح عمران کے لیے استعمال کی جاتی تھی اب یہی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ایک دوسرے کے لیے استعمال کرہی ہے۔ آنے والے وقت میں بات اور بڑھے گی ۔ مزید دوریاں پیدا ہوں گی۔ مولانا فصل الرحمن کی دونوں جماعتوں کو قریب لانے کی کوشش کاآمد ہوتی نظر نہیں آرہیں۔ پیپلز پارٹی نے جس طرح قومی اسمبلی سےیوسف رضا گیلانی کو سینیٹر منتخب کرایا، پھرانہیں اپوزیشن لیڈر بنایا اور اب مسلم لیگ کے مضبوط امیدار کو شکست دی ہے اس کے بعد تو مسلم لیگ کو یہ تسلیم کرلینا چاہیے کہ ایک زرداری سب پر بھاری۔ پاکستان کی سیاست بہت ظالم ہے جہاں لوگ راتوں رات اپنی وفاداری تبدیل کرلیتے ہیں، جہاں نظریات، اصول پسندی اوروعدوں سے زیادہ صرف جیت عزیز ہوتی ہے۔ یہ جیت چاہے جیسے بھی حاصل کی جائے۔