تحریک لبیک پر پابندی عائد، کیا پارٹی تحلیل ہوگی؟

پاکستان پچھلے پانچ دنوں سے پرتشدد مظاہروں کی لپیٹ میں رہا ہے، جس کی وجہ لاہور میں سیاسی و مذہبی جماعت تحریک لبیک پاکستان کے سربراہ سعد حسین رضوی کی پیر (12 اپریل) کے روز پنجاب پولیس کے ہاتھوں گرفتاری بنی۔
ان پرتشدد مظاہروں میں حکومت کے مطابق 4 پولیس اہلکار جاں بحق اور 600 سے زائد زخمی ہوئے جبکہ پولیس کے ساتھ تصادم کے نتیجے میں تحریک لبیک پاکستان کے بھی متعدد کارکنان جاں بحق ہوئے ہیں۔ ان پر تشدد مظاہروں کے بعد پاکستانی حکومت اس جماعت پر انسداد دہشتگردی ایکٹ 1997ء کے تحت پابندی لگاچکی ہے۔
یہ پابندی انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997ء کی دفعہ 11 بی (1) کے تحت لگائی گئی ہے تاہم وفاقی حکومت کو تحریک لبیک پاکستان کو بحیثیت سیاسی جماعت تحلیل کرنے کیلئے الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 212 (1) کا سہارا لینا پڑے گا۔ واضح رہے اس جماعت نے 2018ء کے عام انتخابات میں 22 لاکھ سے زائد ووٹ حاصل کئے تھے، جبکہ اس کے سندھ اسمبلی میں 3 اراکین بھی موجود ہیں۔
الیکشنز ایکٹ 2017ء کی دفعہ 212 (1) کے مطابق وفاقی حکومت اگر سمجھتی ہے کہ کوئی سیاسی جماعت پاکستان کی سالمیت کیخلاف کام کررہی ہے یا الیکشن کمیشن اور کسی ذرائع کے تحت حکومت کو پتہ چلے کہ سیاسی جماعت غیر ملکی فنڈز حاصل یا دہشت گردی میں ملوث ہے، تو حکومت ایک نوٹیفکیشن جاری کرکے اس جماعت کو کالعدم قرار دے سکتی ہے۔
دوسری جانب حکومت سیاسی جماعت پر پابندی عائد کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کرنے کے 15 دن بعد معاملے کو سپریم کورٹ کے پاس بھیجنے کی پابند ہے۔ اگر سپریم کورٹ حکومت کے فیصلے کو برقرار رکھتی ہے تو الیکشنز ایکٹ 2017ء کے تحت وہ جماعت "تحلیل" ہوجائے گی۔

انٹرنیشنل کمیشن فار جیورسٹ کی وکیل اور قانونی مشیر ریما عمر نے سماء ڈیجیٹل سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ سیاسی جماعتوں پر پابندی عائد کرنے کا "صحیح طریقۂ کار" الیکشن ایکٹ ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ عجیب بات ہے کہ کسی سیاسی جماعت پر پابندی عائد کرنے کے بعد اسے تحلیل کرنے کی طرف قدم بڑھایا جارہا ہے۔
لاہور میں مقیم ایک وکیل اسد جمال کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ تحریک لبیک پاکستان پر پابندی لگانے کا اقدام حکومت کا یکطرفہ فیصلہ ہے، سپریم کورٹ ٹی ایل پی رہنماؤں اور وکلاء کا مؤقف جاننے کیلئے نوٹس جاری کرے گی۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ حکومت کے مؤقف کا جائزہ لے گی، جس کے بعد نظرثانی کرے گی جبکہ حکومت کو ٹی ایل پی کیخلاف شواہد اکٹھے کرنا ہوں گے اور عدالت کو مطمئن کرنا پڑے گا۔
اسد جمال کا یہ بھی کہنا تھا کہ دہشت گردی کا الزام کسی بھی سیاسی جماعت پر پابندی عائد کرنے کا آسان راستہ ہے تاہم حکومت کو عدالت میں اس بات کو ثابت کرنا پڑے گا کہ گزشتہ دنوں ملک میں جو کچھ ہوا وہ دہشتگردی کے زمرے میں آتا ہے۔
اگر ٹی ایل پی تحلیل ہوتی ہے تو اس کے اراکین کا کیا ہوگا؟
اگر سپریم کورٹ تحریک لبیک پاکستان پر پابندی کے حکومتی فیصلے کو برقرار رکھتی ہے تو پارٹی کے سندھ اسمبلی میں موجود تینوں اراکین نااہل قرار دے دیئے جائیں گے، جس کا الیکشن کمیشن باقاعدہ نوٹیفکیشن جاری کرے گا۔
سماء ڈیجیٹل نے تحریک لبیک پاکستان کے سندھ اسمبلی کے رکن محمد یونس سومرو سے رابطہ کیا، جب ان سے پوچھا گیا کہ اگر انہیں کہا جائے کہ وہ اپنی جماعت یا اسمبلی رکنیت میں سے کسی ایک کا انتخاب کریں تو وہ کیا کریں گے، جس پر انہوں نے جواب دیا کہ وہ تحریک لبیک پاکستان کے عہدیدار نہیں اور باقی معاملات پر وہ اپنے وکیل سے مشورہ کریں گے۔