پب جی کھیل کا دوسرا رخ بھی خطرناک ہوسکتا ہے
اسکول بند تھے۔ آپ کہیں نہیں جا سکتے تھے۔ نارتھ کراچی کی رہائشی 16سولہ سالہ صبا کی دنیا ویسے ہی بہت چھوٹی تھی اور اس کی دنیا اور بھی محدود ہو گئی جب گزشتہ سال مارچ میں سندھ حکومت نے کرونا وائرس کے مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظرلاک ڈاؤن نافذ کردیا۔ باہر کی دنیا کی خبر رکھنے اور لوگوں سے تعلقات بحال رکھنے کا واحد ذریعہ اس کا موبائل تھا اور اس وقت پب جی اس کے لیے کسی نعمت سے کم نہ تھا۔
اس آن لائن گیم میں 100 سے زائد کھلاڑی بغیر کسی اسلحے کے ایک جزیرے پر پیراشوٹ کی مدد سے اترتے ہیں۔ دشمن کے خاتمے اور اپنے اپنے دفاع کے لیے ان کو خود ہی ہتھیار ڈھونڈنا ہوتے ہیں۔ جب آپ گیم کھیل رہے ہوتے ہیں تو اس دوران کھلاڑی آپس میں وائس چیٹ کرتے ہیں تا کہ حکمت عملی سے ٹیم کو جیت کی طرف گامزن کیا جائے۔
کھلاڑی راولپنڈی میں بیٹھ کر لاس اینجلس میں موجود کھلاڑیوں سے دوستی بھی کر سکتے ہیں کیوں کہ پب جی بین الاقوامی کھیل ہے۔
اسی طرح جب صبا نے پب جی کھیلنا شروع کیا تو اس کا تعارف مختلف کھلاڑیوں سے ہوا۔ لیکن ان کھلاڑیوں میں سے ایک فرقان تھا جس سے دوران کھیل اس کی قربت بڑھنے لگی۔19 سالہ فرقان شیخوپورہ کے قریب واقع ایک گاؤں میں رہتا تھا۔ فرقان 8ویں جماعت پاس تھا اور اپنے گاؤں میں واقع ایک موبائل ریپیئرنگ شاپ میں کام کرتا تھا۔
صبا کے والد رستم، جو کہ ایک کپڑا رنگنے والی فیکٹری میں کام کرتے ہیں،ان کو اپنی سب سے چھوٹی بیٹی کا ہر وقت موبائل میں کھیلتے رہنا پسند نا تھا۔ صبا اپنے گھر میں لاڈلی تھی مگر اس کے باوجود رستم اس کو کئی بار پب جی کھیلنے پر ڈانٹ چکا تھا۔
چار اپریل کو رستم جب صبح 8 بجے کام پر جانے کے لیے گھر سے نکلا تو اس نے دیکھا کی صبا اپنے کمرے میں سو رہی ہے لیکن جب صبا کی والدہ دن 11 بجے سو کر اٹھی تو اس نے دیکھا کہ صبا اپنے کمرے میں موجود نہیں۔ کئی گھنٹے تک صبا کی والدہ، بھائی اور بہن نے اس کو ڈھوںڈا مگر ناکام رہے۔
اس دوران صبا کی بہن نے والدین کو بتایا کہ صبا کی پب جی کھیلتے ہوئے ایک لڑکے سے دوستی ہو گئی تھی اور وہ سوشل میڈیا پرلاہوری بچہ کے نام سے اپنا اکاؤنٹ چلا رہا ہے۔ صبا کی بہن نے والدین کو مزید بتایا کہ جب وہ اسے دن میں ڈھونڈ رہے تھے تو اس کے نمبر پر ایک شخص کی کال آئی تھی اور وہ صبا کا پوچھ رہا تھا لیکن جب میں نے اس کو بتایا کہ صبا گھر پر نہیں ہے تو اس نے کال کاٹ دی۔
رستم فورا سر سید تھانہ پہنچا اور پولیس کوبتایا کہ اس کی سب سے چھوٹی بیٹی کئی گھنٹوں سے لاپتہ ہے۔ پولیس نے کم عمر بچی کی اغوا کی دفعہ کے تحت مقدمہ نمبر 283/2021 درج کر لیا۔ چونکہ یہ مقدمہ اغوا کی دفعہ کے تحت درج کیا گیا تھا، لہذا اس کی تفتیش اینٹی وائلنٹ کرائم سیل (اے وی سی سی) کے حوالے کر دی گئی۔
سات اپریل کو اے وی سی سی نے سہراب گوٹھ میں واقع بس اڈے پر چھاپہ مار کر صبا کو بازیاب کرواتے ہوئے دو نوجوانوں، جن میں فرقان بھی شامل تھا، گرفتار کر لیا۔
سماء ڈیجیٹل سے بات کرتے ہوئے فرقان نے بتایا کہ ایک دن صبا نے اس کو کال کی اور کہا کی وہ گھر چھوڑ کر بھاگ جائے گی کیوں کہ اس کے والد اس کو ہر وقت موبائل پر پب جی کھلنے پر ڈنٹ ڈپٹ کرتے ہیں۔ صبا نے مجھے کہا کہ تم کراچی آؤ اور اگر تم نہ آئے تو وہ خود کو ختم کر لے گی۔
فرقان نے فیصلہ کیا کہ وہ کراچی جائے گا لیکن وہ اس بات سے خوفزدہ تھا کہ وہ پہلے کبھی کراچی نہیں آیا تھا۔ فرقان نے اپنے قریبی دوست سلطان کی مدد حاصل کرنے کا فیصلہ کیا کیوں کہ سلطان کے رشتےدار کراچی میں رہتے ہیں۔
فرقان نے بتایا کہ وہ اور سلطان 3 اپریل کو لاہور آئے جہاں اس نے سلطان کو پوری کہانی سنا دی۔ سلطان نے کہا کہ اگر صبا خودکشی کرلے تو پولیس اس کا کال ڈیٹا ریکارڈ حاصل کر کے اس تک پہنچ جائے گی اور پھر اس کو اور اس کے والدین کو صبا کو خودکشی پراُکسانے کے الزام میں گرفتار کرلے گی۔
فرقان نے فیصلہ کیا کہ وہ اور سلطان کراچی جائیں گے اور پھر لاہور ریلوے اسٹیشن کی طرف چل پڑے۔ دونوں پاکستان ایکسپریس میں بیٹھ کر 4 اپریل بروز اتوار دن 11 بجےکراچی کینٹ اسٹیشن پر پہنچ گئے۔ اس دوران فرقان صبا سے مسلسل رابطے میں رہا لیکن کراچی پہنچنے پر جب اس نے صبا کو کال کی تو اس کا نمبر بند تھا اور یہ بلکل وہی وقت تھا جب صبا اپنا گھر چھوڑ کر جا چکی تھی۔
صبا نے فرقان کو ایک اور نمبر دیا تھا اور بتایا تھا کہ اگر کبھی اس کا نمبر بند ہو تو وہ اسے دوسرے نمبر پر کال کر کے بات کر سکتا ہے۔ فرقان نے جب دوسرے نمبر پر کال کی توصبا کی بڑی بہن نے کال موصول کی اورکہا کہ صبا گھر پر نہیں ہے۔ اسی دوران ان کا رابطہ سلطان کے کزن سہیل سے ہوا۔ سہیل دونوں کو اپنے گھر لے گیا۔
فرقان سے جب سوال کیا کہ سہیل کا گھر کہاں واقع ہے تو اس نے موقف اختیار کیا کہ وہ کراچی پہلی دفعہ آیا ہے اور اس کو شہر کے علاقوں کا کچھ علم نہیں۔
منصوبے کے تحت 7 اپریل بروز بدھ کو فرقان سے رابطہ کرنے کے لیے اپنا موبائل آن کیا۔ دونوں نے فیصلہ کیا کہ وہ سہراب گوٹھ میں واقع بس اسٹینڈ پر ملیں گے۔ فرقان اور سلطان جیسے ہی سہراب گوٹھ پہنچے تو پولیس نے چھاپہ مار کر دونوں کو گرفتار کرتے ہوئے صبا کو بازیاب کروا لیا۔
سماء ڈیجیٹل نے جب فرقان سے بس اسٹینڈ پہنچنے کے بعد مستقبل کے منصوبے سے متعلق پوچھا تو اس نے جواب دیا کہ اس نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ صبا کو اس بات پر راضی کر لے گا کہ وہ اپنے گھر واپس چلی جائے۔
اے وی سی سی کے انسپکٹر اور اس کیس کے تفتیشی افسر رحیم شاہ نے سماء ڈیجیٹل کو بتایا کہ صبا کے والد نے صبا کا جو نمبر پولیس کو دیا تھا، اس نمبر کو مانیٹرنگ پر لگا رکھا تھا اور 7 اپریل کو جیسے ہی صبا نے اپنا نمبر آن کیا تو پولیس سراغ لگاتے ہوئے سہراب گوٹھ بس اسٹینڈ پہنچ گئی۔
تفتیشی افسر کے مطابق صبا نے بتایا کہ انہوں نے منصوبہ بندی کر رکھی تھی کہ وہ بس کے ذریعے راولپنڈی جایئں گے اور وہاں جا کر عدالت میں شادی کرنے کے بعد مری میں ہنی مون منانے چلے جائیں گے۔
رحیم شاہ نے بتایا کہ صبا نے پولیس کو اپنے بیان میں بتایا کہ وہ 4 اپریل بروز اتوار سے لیکر 7 اپریل بروز بدھ تک اپنے گھر سے تھوڑا دور واقع اپنے سہیلی کے گھر پر رہی۔
آٹھ اپریل بروزجمعرات اے وی سی سی نے صبا، فرقان اور سلطان کو جوڈیشل مجسٹریٹ ضلع وسطی میں پیش کیا جہاں مجموعہ ضابطہ فوجداری کی دفعہ 164 کے تحت صبا کا بیان ریکارڈ کیا گیا۔ صبا نے اپنے بیان میں اعتراف کیا کہ اس نے فرقان کو دھمکی دی تھی کہ اگر وہ اس سے ملنے کراچی نہ آیا تو وہ خود کو ختم کر لے گی۔
عدالت نے صبا کو والدین کے حوالے کرتے ہوئے فرقان اورسلطان کو 5 لاکھ روپے کے ضمانتی بانڈ جمع کروانے پر ضمانت پر رہا کر دیا۔
نوٹ: شناخت کے تحفظ کے لیے تمام کرداروں کے نام تبدیل کیے گئے ہیں۔