
پنجاب میں جمہوری حکمرانوں نے جمہوریت کا ایک اہم تقاضا نیم دلی اور عدالتوں کے بار بار اصرار پر پورا تو کردیا لیکن ساتھ ہی اس بات کا اہتمام بھی کردیا ہے کہ اختیارات کی چھڑی طاقتور بیوروکریسی کے ہاتھ سے نہ نکلے، یہاں یہ بتانے کی ہرگز ضرورت نہیں کہ یہ بیورو کریسی حکمرانوں کے اشارہ ء ابرو کے حرکت میں آنے سے پہلے ہی اسے جاننے کی خاص مہارت رکھتی ہے۔
بلدیاتی نظام کیلئے پنجاب اسمبلی سے منظور کیا گیا ایکٹ سابق صدر ضیاء الحق کے دور میں متعارف کرائے گئے بلدیاتی نظام سے خاصی ملتا جلتا ہے، حیرت کی بات ہے کہ سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں لائے گئے بااختیار بلدیاتی نظام سے پہلو تہی تو کی گئی ہے مگر اس نظام کے تخلیق کار دانیال عزیز اب بھی مصاحبینِ خاص میں شامل ہیں، بہرحال دانیال عزیز کی دانشمندی کا اس شعبے میں فائدہ اٹھانا شاید حکمرانوں نے اپنے لیے فائدہ مند نہیں سمجھا۔
پنجاب حکومت نے لوکل باڈیزایکٹ ایسے بنایا ہے کہ صوبے کے کسی بھی حصے سے دیکھیں تو سامنے تخت لاہور کا گھنٹہ گھر ہی نظر آئے گا۔ ایکٹ کے مطابق بلدیاتی اداروں کے اوپر ایک لوکل گورنمنٹ کمیشن بنایا گیا ہے جو کسی بھی نمائندے کو معطل یا نااہل قرار دے سکے گا، یعنی کسی ضلع کا چیئرمین اپوزیشن جماعت سے ہے اور وہ اس کی سیاسی سرگرمیاں وزیراعلیٰ کو پسند نہیں تو وہ حسب روایت انگشتِ شہادت بلند کرکے اس عوامی نمائندے کو نشان عبرت بنانے کا حکم صادر کرسکیں گے۔

ایکٹ کے مطابق تشکیل دیئے گئے کمیشن کا چیئرمین وزیر بلدیات کو بنایا گیا ہے، کمیشن کے تین ارکان پنجاب اسمبلی کے ارکان ہوں گے جن میں سے دو کو وزیراعلیٰ جب کہ ایک کو اپوزیشن لیڈر نامزد کرے گا، کمیشن میں پنجاب حکومت کے نامزد کردہ دو ٹیکنو کریٹس بھی ہوں گے،ایک ممبر سیکریٹری لوکل گورنمنٹ ہوگا۔
اس تشکیل میں یہ بات بالکل واضح ہے کہ سات میں سے چھ ارکان حکومت کی مرضی سے چلیں گے، اس ایکٹ کا ایک دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ منتخب نمائندوں نے خواہشات اور امیدوں کی جو ہنڈیا چڑھائی ہے وہ بیچ چوراہے ہی پھوٹنے والی ہے، کیونکہ اختیار اور فنڈز نام کی کوئی چیز ان کے پاس نہیں ہوگی۔ یونین کونسل ،میونسپل اور ڈسٹرکٹ کونسل کے چیئرمین ہی نہیں میئر کے پاس بھی صحت ،تعلیم اور زراعت جیسے شعبوں میں دخل اندازی کا کوئی اختیارنہیں ہوگا۔
صوبے کے بڑے شہروں میں پہلے ہی خودمختار مویشی منڈیاں، واٹرسپلائی کے ادارے اور ویسٹ مینجمنٹ کی کمپنیاں بنا کر انہیں بلدیاتی اداروں کی حدود سے الگ کردیا گیا ہے۔ یہ ادارے صوبائی حکومت کے نامزد کردہ افراد ہی چلارہے ہیں۔ بلدیاتی اداروں کو مقامی طورپرٹیکس کے نفاذ کا اختیاربھی نہیں دیا گیا البتہ دفاتر اور متعلقہ ساز و سامان کی خریداری کےلیے پنجاب حکومت کی جانب سے 2 ارب روپے جاری کرنے کا عندیہ ظاہر کیا گیا ہے جو ڈی سی اوز کے ذریعے جاری کیے جائیں گے۔

اس ساری صورت حال کو دیکھ کر صرف یہی کہا جاسکتا ہے کہ بلدیاتی نمائندے حکمراں سیاسی جماعت کے مختلف پروگراموں کیلئے افرادی قوت مہیا کرنے کے ساتھ ساتھ یتیموں، بیواؤں اورمحتاجوں کی خبرگیری کرکے وقت گزاریں گے ۔ بلدیاتی نمائندوں نے اپنی یہ ذمہ داریاں احسن طریقے سے نبھائیں تو دنیا نہ سہی آخرت میں انہیں اس کا ضرور اجر ملے گا۔ سماء