کالمز / بلاگ

عبدالحمید چھاپرا نے پریس کلب کو جمہوریت کا گہوارہ  بنایا 

انہوں نے مشکل حالات میں حبیب جالب کا بھرپور ساتھ دیا

آخری حصہ

عبدالحمید چھاپرا صاحب جمہوری روایات کے علمبردار اور آمریت کے زبردست مخالف تھے انہوں نے پاکستان میں ہر طرح  کے آمر کے خلاف حقوق انسانی کی سربلندی کیلئے چلنے والی تحریکوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔  انہوں نے جنرل ایوب، جنرل یحییٰ، جنرل ضیاء اور جنرل پرویز مشرف کے دور آمریت اور عوام و جمہوریت دشمن  ہتھکنڈوں اور بھٹو دور کے کچھ اقدامات کے خلاف واشگاف انداز میں صدائے احتجاج بلند کی۔

ان کا کہنا تھا کہ پورا کراچی دور طالب علمی سے لےکر میری پوری زندگی تک حقوق انسانی اور آزادی اظہار کیلئے میری جدوجہد سے بخوبی واقف ہے۔ سن 1977 میں جب جنرل ضیاء الحق نے اقتدار پر قبضہ کیا اور پاکستان میں ہر قسم کی سیاسی و تنظیمی سرگرمیوں پر پابندی عائد کردی تو ملک بھر کے صحافیوں اور اخباری کارکنوں نے اس کے خلاف آواز بلند کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ مظلوم طبقات کی آواز کو بلند کرنے اور ترجمانی کیلئے  کراچی پریس کلب کو پلیٹ فارم کے طور پر پیش کیا گیا۔ عبدالحمید چھاپرا اسی دور آمریت میں سن 1980 سے سن 1985 تک کراچی پریس کلب کے 5 بار صدر منتخب ہوئے تھے جب پورے ملک میں کسی قسم کی صدائے احتجاج بلند کرنے پر سخت پابندیاں عائد کر دی گئی تھیں۔ اس وقت کراچی پریس کلب میں عبدالحمید چھاپرا کی جرات مندانہ قیادت میں ناصرف سیاسی جماعتوں اور مزدور و طلبہ تنظیموں کو پروگرام اور جلسے کرنے کیلئے جگہ فراہم کی گئی بلکہ  بڑے بڑے مشاعرے  مذاکرے اور جلسے بھی کروائے گئے۔ اسی دور میں تحریک بحالی جمہوریت (ایم آر ڈی)  کا قیام  بھی کراچی پریس کلب  میں عمل میں آیا تھا۔ بیگم نصرت بھٹو اور نوابزادہ نصراللہ خان سمیت اپوزیشن کے بڑے سیاسی قائدین اس اجلاس میں شریک ہوئے تھے۔

چھاپرا صاحب بتاتے تھے کہ جب بھٹو کے آخری دور میں وزیر اطلاعات مولانا کوثر نیازی معروف عوامی  شاعر حبیب جالب کے پیچھے پڑے تو اس وقت کراچی پریس کلب نے جالب کو ٹھکانہ فراہم کیا  پھر جب حبیب جالب پر ضیاء الحق کے آمرانہ دور میں لاہور میں زمین  تنگ کر دی گئی تو انہوں نے کراچی پریس کلب کو اپنا دوسرا گھر بنا لیا۔ جالب پریس کلب کی بالائی منزل پر قیام کرتے تھے۔ دسمبر 1980 میں کراچی پریس کلب کے بیک یارڈ میں ہی انہوں نے ضیاء آمریت کے خلاف اپنی یہ مشہور نظم  پڑھی تھی۔

ظلمت کو ضیا صرصر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا

پتھر کو گہر دیوار کو در کرگس کو ہما کیا لکھنا

اک حشر بپا ہے گھر میں  دم گھٹتا ہے گنبد بے در میں

اک شخص کے ہاتھوں مدت سے رسوا ہے وطن دنیا بھر میں

اے دیدہ ورو اس ذلت کو قسمت کا لکھا کیا لکھنا

ظلمت کو ضیا صرصر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا

یہ اہل حشم یہ دارا و جم سب نقش بر آب ہیں اے ہم دم

مٹ جائیں گے سب پروردہ شب اے اہل وفا رہ جائیں گے ہم

ہو جاں کا زیاں  پر قاتل کو معصوم ادا کیا لکھنا

ظلمت کو ضیا صرصر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا

لوگوں پہ ہی ہم نے جاں واری کی ہم نے ہی انہی کی غم خواری

ہوتے ہیں تو ہوں یہ ہاتھ قلم شاعر نہ بنیں گے درباری

ابلیس نما انسانوں کی اے دوست ثنا کیا لکھنا

ظلمت کو ضیا صرصر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا

حق بات پہ کوڑے اور زنداں باطل کے شکنجے میں ہے یہ جاں

انساں ہیں کہ سہمے بیٹھے ہیں خونخوار درندے ہیں رقصاں

اس ظلم و ستم کو لطف و کرم اس دکھ کو دوا کیا لکھنا

ظلمت کو ضیا صرصر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا

ہر شام یہاں شام ویراں آسیب زدہ رستے گلیاں

جس شہر کی دھن میں نکلے تھے وہ شہر دل برباد کہاں

صحرا کو چمن   بن کو گلشن بادل کو ردا کیا لکھنا

ظلمت کو ضیا صرصر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا

اے میرے وطن کے فن کارو ظلمت پہ نہ اپنا فن وارو

یہ محل سراؤں کے باسی قاتل ہیں سبھی اپنے یارو

ورثے میں ہمیں یہ غم ہے ملا اس غم کو نیا کیا لکھنا

ظلمت کو ضیا صرصر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا

حبیب جالب  اس تقریب کیلئے یہ تازہ کلام کراچی  پریس کلب کے صدر عبدالحمید چھاپرا کی فرمائش پر لکھ کر لائے تھے۔ اسی تقریب میں چھاپرا صاحب اور ان کی ٹیم نے حبیب جالب کو کراچی پریس کلب کی تاحیات ممبر شپ دی تھی۔ ان کا یہ کلام انتہائی تیزی کے ساتھ  پورے ملک میں مقبولیت حاصل کر گیا تھا اور جمہوریت کے پروانے اور آزادی اظہار کے ہر متوالے کو یہ ازبر تھا۔ اس مشکل دور میں چھاپرا صاحب  نے حبیب جالب کا بھرپور ساتھ دیا تھا اور وہ ہر دم ان کے ساتھ رہے جس کی وجہ سے انہیں حبیب جالب کی تصویر کہا جانے لگا تھا۔ چھاپرا صاحب کی خدمات کے اعتراف میں انہیں سن 2014میں جالب امن ایوارڈ  دیا گیا تھا۔ چھاپرا صاحب کے دور میں کراچی پریس کلب  جمہوریت کے متوالوں کا گڑھ بن گیا تھا۔

ادبی و سیاسی پروگراموں کے انعقاد اور کراچی پریس کلب کے باہر مظاہروں کی وجہ سے اسے ہائیڈ پارک کا درجہ ملا تھا جبکہ اس مزاحمتی کردار کی وجہ سے فوجی حکمرانوں نے کراچی پریس کلب کو  دشمن کا علاقہ  قرار دے دیا تھا۔ چھاپرا صاحب کے دور صدارت میں ممتاز شاعر فیض احمد فیض، ڈاکٹر عبدالسلام اور جوش ملیح آبادی جیسی شخصیات کو ان کے  شعبوں میں مثالی خدمات پر کراچی پریس کلب کی  تاحیات ممبر شپ دی گئی تھی۔ فیض احمد فیض جب بیروت میں تھے تو ان کی 70ویں سالگرہ کی شان دار تقریب کراچی پریس کلب میں منعقد کی گئی تھی۔ چھاپرا صاحب کا کہنا  تھا کہ  اس تقریب کے انعقاد پر فیض احمد فیض کی اہلیہ ایلیس فیض بہت خوش ہوئی تھیں جو مجھ سے طویل قامت تھیں۔ انہوں نے مجھے  پیارسے گلے لگایا اور تقریب کے انعقاد پر اظہار تشکر کیا تھا۔

چھاپرا صاحب کراچی پریس کلب کے ابراہیم جلیس میں ہونے والی ہر پریس کانفرنس اور پروگرام میں موجود ہوتے تھے اور پریس کانفرنس کی پریس ریلیز میں زبان و بیان کی غلطیوں نشاندہی کرتے تھے۔ اگر کسی کا تلفظ غلط ہوتا تو اس کی تصحیح کرتے تھے۔  وہ مظلوم  افراد کی پریس کانفرنس کی خبریں چھپوانے کی ہر ممکن کوشش کرتے تھے۔ چھاپرا صاحب  الفاظ کے استعمال اور جملوں کی ادائیگی میں صحافیوں کے ساتھ ساتھ سیاسی رہنماؤں کی بھی تصحیح کرتے تھے۔ شازیہ مری جب سندھ کی وزیر اطلاعات تھیں تو کراچی پریس کلب آتی تھیں۔ چھاپرا صاحب دوران گفتگو ان کو بھی الفاظ کا درست استعمال اورجملوں کی صحیح ادائیگی بتاتے تھے۔ شازیہ مری نے کئی بار اپنی گفتگو میں سالوں کا لفظ استعمال کیا تو چھاپرا صاحب نے انہیں ٹوکا اور کہا کہ بیٹی یہ درست ہے کہ سال کی جمع سالوں ہے لیکن یہ بول چال میں مناسب نہیں لگتا۔ آپ اس کی جگہ برسوں کا لفظ استعمال کریں۔ اس کے بعد شازیہ مری نے ان کی ہدایت پر عمل کیا۔

عبدالحمید چھاپرا ملک بھر کے ٹریڈ یونیز لیڈروں، وکلاء، حقوق انسانی کی جدوجہد کرنے والوں کے ساتھ سیاسی اور سماجی حلقوں میں بھی وسیع تعلقات رکھتے تھے۔ کراچی میں تعینات غیر ملکی سفارتکاروں کے ساتھ  بھی ان کے دوستانہ مراسم تھے۔ وہ غیر ملکی قونصل خانوں میں ہونے والی تقاریب میں شریک ہوتے تھے اور  وہ  ان سرگرمیوں کو اپنے کالمز میں قلم بند کرتے تھے۔ کانگریس آئی سے تعلق رکھنے والے بھارت کے سابق مرکزی وزیر مانی شنکر آئر 80 کی دہائی میں جب کراچی کے بھارتی قونصل خانے میں تعینات تھے تو اس دوران ان کے چھاپرا صاحب سے دوستانہ مراسم قائم ہوئے اور وہ عبدالحمید چھاپرا کے بہترین دوستوں میں سے ایک تھے۔ وہ کراچی میں تعیناتی کے دوران  پریس کلب آتے تھے۔ پاکستان میں سفارتی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہونے کے بعد بھارت واپس جا کر مانی شنکر نے کانگریس جوائن کر لی تھی اور وہ مرکزی وزیر کے منصب پر بھی فائز ہوئے تھے۔ وہ جب  پاکستان آتے تھے تو چھاپرا صاحب سے ملاقات کیلئے کراچی ضرور آتے اور پریس کلب میں کھانے پر ملاقات میں ماضی کے قصے اور دونوں ملکوں کی سیاسی صورت حال پر گفتگو کرتے تھے۔ ان ملاقاتوں میں چھاپرا صاحب ان سے نئے صحافیوں کو بھی متعارف کرواتے تھے۔  اندرون  ملک و بیرون ملک سے آنے والے سیاست دانوں  صحافیوں  اور دیگر وفود کو چھاپرا صاحب کراچی پریس کلب کی تاریخ اور صحافیوں کی جدوجہد کی تفصیلات سےآگاہ کرتے تھے۔  چھاپرا صاحب کے بیرون ملک صحافتی  اور ٹریڈ یونین تنظیموں سے بھی رابطے تھے۔ وہ کنفیڈریشن آف ساؤتھ ایشین جرنلسٹس  یونینز (کاجو) کے بانی ارکان میں شامل تھے۔ ان کی سربراہی میں ایک وفد کاجو کی تشکیل کے سلسلے میں اجلاس کیلئے بھارت گیا تھا جس میں ملک بھر کی یوجیز کے عہدے داران بھی شامل تھے۔  اس وقت کے یوجے کے جنرل سیکریٹری سرفراز احمد (جو ان دنوں روزنامہ بزنس ریکارڈر سے وابستہ ہیں) کاجو کی  آئین ساز کمیٹی کے رکن  تھے۔

وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے صاحبزادے اور بینظیر بھٹو کے بھائی مرتضیٰ بھٹو کے قتل کی تحقیقات کیلئے جسٹس ریٹائرڈ ناصر اسلم زاہد کی سربراہی میں عدالتی کمیشن تشکیل دیا گیا تھا۔ اس وقت روزنامہ ڈان کے رپورٹر اور کے یو جے کے سابق صدر سرفراز احمد نے  اپنے ذرائع کے حوالے سے مرتضیٰ بھٹو کے قتل کیس سے متعلق (ایک ایکسکلو سیو) بائی لائن خبر دی تھی جس پرہلچل مچ گئی تھی۔ عدالتی کمیشن نے سرفراز احمد کو  طلب کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنی سورس (ذرائع) کو افشا کریں۔ اس پر کراچی پریس کلب میں صحافیوں کے ایک اجلاس میں فیصلہ ہوا تھا کہ سرفراز احمد اپنی سورس افشا نہیں کریں گے۔ کمیشن اگر انہیں سزا دیتا ہے تو دیدے۔ جب کمیشن میں سرفراز احمد کی پیروی کرنے کیلئے وکیل کی بات آئی تو چھاپرا صاحب جو اس وقت پی ایف یوجے کے صدر بھی تھے نے کہا کہ  میں اس کیس میں سرفراز احمد کی وکالت کروں گا۔ کوئی بھی وکیل مجھ سے زیادہ آزادی صحافت اور صحافتی قوانین کو نہیں جانتا۔ کراچی پریس کلب سے صبح سویرے  بڑی تعداد میں صحافی کئی روز تک  ڈیفنس جاتے رہے جہاں اس کیس کی سماعت ہوتی تھی۔ سرفراز احمد نے عدالتی کمیشن کے بار بار دباؤ اور سزا کا خوف دلانے کے باوجود اپنی سورس کو افشا کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ چھاپرا صاحب نے کمیشن کے سامنے بھی اپنے مخصوص انداز میں دلائل دیتے ہوئے سرفراز احمد کا دفاع کیا اور وہ اس میں سرخرو ہوئے تھے۔

چھاپرا صاحب کا حافظہ بلا کا تھا۔ وہ ہر واقعے کی تاریخ، دن، وقت، موجود لوگ اور دیگر جزیات تک کی تفصیل بتاتے تھے۔ چند سال قبل علالت کے دوران ان کی یادداشت کچھ ماہ کیلئے غائب ہو گئی تھی اور وہ کسی کو بھی نہیں پہچانتے تھے۔ اس وجہ سے ان کی کراچی پریس کلب  آمد میں تعطل آ گیا تھا۔ اس دوران کراچی پریس کلب کے ارکان ملاقات کیلئے ان کے گھر جاتے تھے۔ میں بھی دو مرتبہ ان سے ملنے گیاتھا۔  کچھ عرصے بعد ان کی یادداشت واپس آئی تو حیران کن طور پر ان کے حافظے پر کوئی اثر نہیں پڑا تھا اور صورت حال بالکل ایسی لگتی تھی  کہ جس طرح کسی کمپیوٹر کی ہارڈ ڈرائیو میں  کوئی نقص آجاتا ہے تو وہ عارضی طور پر کام کرنا چھوڑ دیتی ہے۔ یادداشت واپس آنے کے بعد ایک اتوار کو میں اور اے ایچ خانزادہ چھاپرا صاحب سے ملنے ان کے گھر گئے تھے یہ ملاقات تقربیاً دو گھنٹے جاری رہی تھی جس میں  وہ  پرانے قصے اور یادوں کا ذکر کرتے رہے۔ بعد میں  چھاپرا صاحب کو ان کا بیٹا رضوان (جسے وہ پیار سے جمعہ خان کہتے تھے) اور ان کا بھتیجا کراچی پریس کلب لاتے اور لےجاتے تھے۔ لیکن ان کی آمدکا سلسلہ پہلے کی طرح روزانہ نہیں تھا اس میں ایک یا دو دن کا وقفہ ہوتا تھا۔ یہ سلسلہ کچھ وقت جاری رہا پھر ان دونوں صاحبان کی مصروفیات بھی  بڑھ گئیں۔ رضوان ملازمت کی وجہ سے بیرون ملک چلے گئے جس کے بعد  چھاپرا صاحب بس کے ذریعے سفر کرنے لگے۔ وہ گھر کے  قریب سے گزرنے والی بس میں سوار ہو کر صدر پوسٹ آفس پر اترتے اور وہاں سے پیدل کراچی پریس کلب پہنچتے تھے اور اسی طرح شام کو واپس گھر جاتے تھے۔ وہ تھوڑے عرصے تک اسی طرح پریس کلب آتے رہے  پھر پیرانہ سالی، بیماری اور نقاہت کی وجہ سے ان کی آمد کا یہ سلسلہ بھی ختم ہوگیا تھا۔

چھاپرا صاحب کی طبعیت میں بہتری آئی توسن 2019 میں اس وقت کی گورننگ باڈی نے کراچی پریس کلب میں ان کی سالگرہ منعقد کرنے کا پروگرام ترتیب دیا۔ کراچی پریس کلب کے صدر امتیاز فاران اور سیکرٹری ارمان صابر اور گورننگ باڈی کے دیگر ارکان نے نجیب ٹیرس پر تمام  لوازمات کے ساتھ سالگرہ  کے بہترین انتظامات کیے تھے جس میں چھاپرا صاحب کے اہل خانہ، صحافیوں اور چاہنے والوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی تھی۔ چھاپرا صاحب کی 80ویں سالگرہ کا کیک کاٹا گیا۔ تقریب میں ان کی اہلیہ بیٹا، بہو، صاحبزادیوں، نواسے، نواسیاں اور پوتے بھی موجود تھے۔ کےیوجے سابق صدر شبراعظمی علالت کے باوجود اس تقریب میں شرکت کیلئے وہیل چیئر پر آئے تھے۔ عابد علی سید، شبر اعظمی، حبیب خان غوری، شہناز احد اور دیگر مقررین نےچھاپرا صاحب کی صحافتی زندگی، ٹریڈ یونین سرگرمیوں، صحافیوں کے حقوق اور آزادی اظہار کیلئے ان کی جدوجہد پر روشنی ڈالتے ہوئے انہیں خراج تحسین پیش کیاتھا۔ کراچی پریس کلب کے ٹیرس پر عبدالحمید چھاپرا کی آواز مائیک کے بغیر ہی کئی دہائیوں تک گونجتی رہی مگر  نقاہت کی وجہ سے وہ اس تقریب میں چند منٹ ہی بول پائے تھے۔ انہوں نےاپنے پورے کیریئر میں تعاون کرنے پر کراچی پریس کلب کے تمام ساتھیوں، ملازمین اور اپنے اہل خانہ کا شکریہ ادا کیا جن کے بھرپور تعاون کی وجہ سے انہوں نے دشت صحافت میں نصف صدی پر محیط کٹھن اور طویل سفر طے کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ کراچی پریس کلب میرا دوسرا گھر ہے ۔ میں جو کچھ بھی ہوں وہ اس کلب اور میرے ساتھیوں کی محبتوں کا ثمر ہے۔ یہ ان کا کراچی پریس کلب کا آخری دورہ  تھا۔

عبدالحمید چھاپرا بیباک اور نڈر تھے وہ ہر جگہ اور ہر ایک کے سامنے کلمہ حق کہنے کی جرات رندانہ رکھتے تھے۔ انہوں نے لکھا کہ میں نے جلسوں کے علاوہ کئی فورمز پر مالکان اخبارات اور اے پی این ایس و سی پی این ای کے عہدے داروں سے ان کی موجودگی میں بارہا  یہ کہا کہ آپ محض سرکاری اشتہارات کی خاطر اپنی خود داری اور وقار کو داؤ پر لگاتے اور حکمرانوں کی کاسہ لیسی کرتے ہیں۔ میں افسوس کے ساتھ کہتا ہوں کہ حکمراں آپ کو بھکاریوں کی طرح دھتکارتے ہیں اورآپ کی تقاریب میں ہی آپ کا مضحکہ اڑاتے ہیں۔ چھاپرا صاحب کا کہنا تھا کہ یوسف شیرازی کی جانب سے اخباری مالکان کی تنظیموں کے عہدے داران کو ایک ڈنر دیا گیا  جس میں  پی ایف یو جے کو بھی مدعو کیا  گیا تھا۔ اس تقریب میں چھاپرا صاحب نے  اپنے خطاب میں اے پی این ایس کےعہدے داروں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھاکہ اگر مالکان اخبارات اپنے رویئے کو  تبدیل نہیں کریں گے اور جرات نہیں دکھائیں گے تو حکمراں آزادی صحافت کا گلا گھونٹنے کیلئے قوانین بناتے رہیں گے۔ اشتہارات لینے کی دوڑ میں مالکان اخبارات نے کبھی آزادی صحافت کیلئے کوئی اسٹینڈ نہیں لیا بلکہ انہوں نے حکمرانوں کی وفاداری اور کاسہ لیسی میں ایک دوسرے پر بازی لے جانے کی کوشش کی  ہے۔ ہمیشہ پی ایف یو جے نے ہی آزادی اظہار اور آزادی صحافت کیلئے جدوجہد کی اور اس کے لیڈروں و کارکنوں نے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کی ہیں۔ اگر آپ (مالکان) خود داری  اور  عزت و وقار کے ساتھ جینا چاہتے ہیں تو آپ کو اشتہارات کا کڑوا گھونٹ پینا پڑے گا ورنہ جمہوریت اور آمریت پسند دونوں طرح کے حکمراں اپنے مفادات کی خاطر آزادی صحافت کو سلب کرنے کیلئے کالے قوانین بناتے رہیں گے ۔ پاکستان میں جتنی بھی  آزادی صحافت ہے وہ پی ایف یو جے کی قربانیوں اور جدوجہد کا ثمر ہے۔ میڈیا انڈسٹری آج جن حالات سے دو چار ہے اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ چھاپرا صااحب نے جو باتیں کہی تھیں وہ بالکل درست تھیں۔

جنرل پرویز مشرف کے دور میں میڈیا پر پابندیوں کےخلاف پی ایف یو جے کی تحریک کئی ہفتوں تک جاری رہی تھی۔ اس وقت ہماعلی پی ایف یو جے کے صدر اور مظہر عباس سیکریٹری جنرل تھے۔ اس تحریک کے دوران کراچی پریس کلب کے سامنے پولیس کریک ڈاؤن کے دوران ڈھائی سو سے زائد صحافیوں کو  گرفتار کر لیا گیا تھا۔ پولیس نے شدید لاٹھی چارج اور آنسو گیس استعمال کی تھی۔ رات گئے تمام گرفتار شدگان کو رہا کر دیا گیا تھا۔ چھاپرا صاحب نے حسب عادت اگلے روز اخبارات میں شائع ہونے والی خبریں اور تصاویر کاٹ کر بڑے بڑے پوسٹرز پر چپکا کر نوٹس بورڈ پر لگا دی تھیں جن میں میری بھی کئی تصاویر تھیں۔ انہوں نے ڈان میں شائع ہونے والی بڑی تصویر کو حاشیہ لگا کر اور نمایاں کر دیا تھا جس میں درجن بھر پولیس اہلکار مجھ پرلاٹھی چارج کررہے تھے۔ جب میں دوپہرمیں کلب آیا تو انہوں نے مجھے دیکھا اور گلے لگا کر پیٹھ تھپتھپائی پھر پکڑ کرنوٹس بورڈ پر لائے اور کہا کہ کیا زبردست تصویریں ہیں تم  نے بڑی بہادری دکھائی۔ وہ ہرایک کو نوٹس بورڈ دکھاتے اور خوش ہوتے تھے کہ اس احتجاج  میں شامل لوگوں نے تو ضیاء دور میں چلنے والی تحریکوں کی پرانی یادوں کو تازہ کر دیا ہے۔چلو اچھا ہوا اس سے شعبہ صحافت میں نئے آنے والوں کو بھی جدوجہد کا کچھ تو تجربہ ہوا۔

چھاپرا صاحب کے ہرعمر کے لوگوں سے ذاتی تعلقات زبردست تھے۔ وہ ہر شخص کو اس کے پورے نام کے ساتھ پکارتے تھے۔ وہ کراچی پریس کلب کے سینیئر ملازمین عبدالقیوم اور عبدالستار کو ان کا پورا نام لے کر بلاتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ صرف قیوم اور ستار پکارنا درست نہیں ہے کیونکہ یہ اللہ تعالی کے نام ہیں۔ وہ پی ایف یو جے سابق سیکرٹری جنرل سی آر شمسی کو بھی ان کے پورے نام چوہدری رحمت اللہ شمسی سے مخاطب کرتے تھے۔وہ آل پاکستان نیوز پیپرز ایمپلائز کنفیڈریشن (ایپنک)کے چیئرمین شفیع الدین اشرف کو رئیس ایپنک کہہ کر پکارتے تھے۔ چھاپرا صاحب کراچی پریس کلب کے ملازمین کا خصوصی خیال کرتے اور ان سے محبت کرتے تھے۔ وہ ہرسال پریس کلب کے تمام  ملازمین کو عیدالفطر کیلئے ایک ایک سوٹ اور عیدی کا لفافہ دیتے تھے۔ پریس کلب کے ملازمین بھی ان کا خیال رکھتے تھے۔ چھاپرا صاحب ہر جمعہ کو  گھر سے دوپہر کا کھانا لاتے تھے۔ ہائیکورٹ سے ملحقہ مسجد خضریٰ میں نماز جمعہ ادا کرنے کے بعد وہ کلب آتے تو عبدالقیوم کی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ ان کا کھانا  لگاتے تھے۔ چھاپرا صاحب کی یہ عادت تھی کہ وہ اس کھانے میں دو تین افراد (جو بھی مل جاتے) کو  لازمی شریک کرتے تھے جبکہ عبدالقیوم کیلئے الگ سے کھانا نکال کررکھتے تھے۔

عبدالحمید چھاپرا کو کھیلوں سے بھی شعف تھا۔ وہ کرکٹ میچ ٹی وی پر شوق سے دیکھتے تھے۔ اگر کوئی کرکٹ میچ ہورہاہوتا تو وہ  ابراہیم جلیس ہال میں داخل ہوتے ہی ٹی وی اسکرین کے قریب جا کر  اسکور دیکھتے اور پھر میچ پر تبصرہ بھی کرتے تھے۔ وہ زمانہ طالب علمی میں  فٹبالر تھے۔ وہ کراچی یونیورسٹی کی فٹبال ٹیم میں شامل تھے۔ چھاپرا صاحب گول کیپر تھے جبکہ یونیورسٹی کی اس فٹ بال  ٹیم کے کپتان واجہ صدیق بلوچ تھے۔

چھاپرا صاحب نے پی ایف یو جے کے بانی ارکان ایم اے شکور، اسرار احمد، ایم اے قیوم، خوندکر غلام مصطفٰی(کے جی مصطفٰی) صفدر قریشی، منہاج برنا، نثار عثمانی اور دیگر رہنماؤں کی سرپرستی میں کام کیا۔ چھاپرا صاحب کا کہنا تھا کہ میں نے نثار عثمانی جیسا نڈر اور بہادر شخص نہیں دیکھا جو بڑے سے بڑے آدمی  کے سامنے بھی  بے خوف و خطر بات کرتے تھے۔ وہ پاکستان میں پہلے آدمی تھے جنہوں نے ضیاء الحق کی آمریت کو چیلنج کیا اور اس وقت آنکھوں میں آنکھیں  ڈال کر بات کی جب خوف اور جبر کے ماحول میں کوئی بھی سیاست دان بولنے کا حوصلہ نہیں کر پا رہا تھا۔ ان  کی جرات مندی نے ہی گھپ اندھیروں میں  روشنی کے در وا کیے تھے جس کے بعد  پاکستان میں  مارشل لاء کے خلاف ایک ملک گیر تاریخی جدوجہد کا آغاز ہوا تھا۔ چھاپرا صاحب کا کہنا تھا کہ میری تربیت میں  بھی عثمانی صاحب کا کردار نمایاں تھا۔ چھاپرا صاحب ان کے ساتھ سیکریٹری جنرل بھی رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ منہاج برنا زبردست لیڈ راور منتظم تھے۔ انہوں نے آزادی اظہار رائے کیلئے جو  تحریک منظم کی تھی وہ پاکستان کی تاریخ کا اہم  حصہ ہے۔ عبدالحمید چھاپرا کا انتقال ایسے وقت میں ہوا ہے جب اس ملک میں صحافت پر مارشل لاء دور سے بھی زیادہ تاریک اور کڑا  وقت ہے۔ ملک بھر میں صحافی اور اخباری کارکن ہر روز ملازمتوں سے فارغ کیے جا رہے ہیں۔ غیراعلانیہ سنسر شپ کا دور دورہ ہے لیکن اس مشکل اور تاریک دور میں عبدالحمید چھاپرا، سلیم عاصمی اور احفاظ الرحمٰن کی طرح اخباری کارکنوں کے روز گار کے تحفظ اور حقوق کیلئے آواز بلند کرنے والا  کوئی بے لوث، نڈر اور بےباک شخص  موجود نہیں ہے۔ ذاتی مفادات اور نفسا نفسی کی موجودہ صورت حال میں دور دور تک ایسی کوئی امید بھی نظرنہیں آتی ہے۔

JOURNALIST

Karachi press club

Tabool ads will show in this div