انتخابات جماعتی، نتائج غیر جماعتی
پنجاب اور سندھ ميں بلدياتی انتخابات کا دوسرا مرحلہ بھی خيريت سے مکمل ہوگيا ہے، خيبر پختونخوا کے بعد ان دونوں صوبوں ميں بھی برسر اقتدار جماعتوں کو ہی اکثريت حاصل ہوئی ہے، ان نتائج میں جو حیران کن چیز نظر آتی ہے وہ 40 فیصد کی سطح تک آزاد اُمیدواروں کی کامیابی ہے، یہی وجہ ہے کہ مسلم ليگ ن اور پيپلزپارٹی کے بعد دوسری پوزيشن کسی سياسی جماعت کی نہيں بلکہ آزاد اميدواروں کی ہے، جو کہ اگلے چند ہفتوں ميں کسی نہ کسی سياسی چھتر پر بيٹھنے کیلئے پر تول رہے ہيں۔
پنجاب ميں پی ٹی آئی اور سندھ ميں ايم کيو ايم اب تيسری پوزيشن کی حق دار ٹھہری ہيں، کئی اضلاع ايسے ہيں جہاں بڑی سیاسی جماعتوں کا مرکزی دھارا کہيں نظر ہی نہيں آتا، فيصل آباد اور بدين کے اضلاع ميں تو آزاد اُميدواروں نے بڑی بڑی سياسی جماعتوں کو اڑا کر رکھ ديا ہے۔
آخر ايسی کيا وجہ ہے کہ سياسی جماعتوں کے ٹکٹ کے حامل اکثر اُميدوار کامياب نہيں ہوسکے، فيصل آباد سميت پنجاب کے متعدد اضلاع ميں ايک ايک يونين کونسل کیلئے درجنوں کارکن ن ليگ کے ٹکٹ کے اپميدوار تھے، شير کا نشان تو صرف ايک کو ملا، باقی شريف قيادت کے نعرے کے ساتھ بالٹی، ہيرا اور جھونپڑی جيسے نشان لیکر ميدان ميں کود پڑے، بيشک ان کارکنوں کی ہمدردياں تو مسلم ليگ ن کے ساتھ تھيں مگر کاميابی کے بعد وہ آزاد اميدوار ہی ٹھہرے۔
سندھ ميں تير کے نشان کے حصول کیلئے زيادہ مقابلہ تو نہيں تھا مگر پيپلز پارٹی کو صوبے ميں جماعتی بنیادوں پر تقسیم اور نااتفاقی کا نتيجہ بھگتنا پڑا۔ چیئرمين بلاول بھٹو کی لمبی لمبی ريلياں اور بڑے جلسے بھی کچھ نہ کرسکے، انتخابات کے غير جماعتی نتائج کی ايک اور وجہ پچھلے 10 سالوں ميں مقامی حکومتوں کے قيام ميں تاخير رہی ہے۔
ایوب خان کی بنيادی جمہوريت ہو یا ضیاء الحق اور پرویز مشرف کے مقامی حکومتوں کے نظام، جماعتوں کے کردار کا فقدان ہی رہا ہے، حتیٰ کہ جمہوری اور نیم جمہوری ادوار ميں بھی جماعتی بنيادوں پر انتخابات کرانے کا رواج نہيں رہا ہے۔ پنجاب اور سندھ ميں موجودہ برسر اقتدار سياسی جماعتوں نے بھی اسی بنياد پر ايک عرصے تک بلدياتی انتخابات کے معاملے کو کسی نہ کسی بہانے سے لٹکائے رکھا۔
اب جبکہ سندھ اور پنجاب ميں برسر اقتدار جماعتوں کی منشا کے عین مطابق نتائج سامنے آئے ہيں اور 5 دسمبر کو ہونیوالے تيسرے اور آخری مرحلے ميں ايسی ہی صورتحال متوقع ہے، لگتا ہے کہ جماعتی بنيادوں پر انتخابات کرانے کا چلن اب مستقبل ميں عام ہوگا، اگر بار بار جماعتی بنيادوں پر انتخابات ہوئے تو نتائج بھی جماعتی نوعيت کے آنا شروع ہوجائيں گے کيونکہ سیانے کہتے ہيں کہ جمہوريت کا فروغ تو زيادہ جمہوريت سے ہی ہوتا ہے۔