کیا پاکستانی طالبان ایک بار پھر متحرک ہورہے ہیں؟

افغان طالبان کے بعد پاکستان اور افغانستان کے علاقوں میں سب سے زیادہ طاقتور سمجھا جانے والا عسکریت پسند گروہ تحریک طالبان پاکستان ایک بار پھر پاکستان خصوصاً خیبر پختونخوا کے قبائلی علاقوں میں متحرک ہوتا نظر آرہا ہے۔
یہ عسکریت پسند گروپ سال 2021ء کے پہلے دو ماہ میں تقریباً 32 چھوٹے بڑے حملوں کی ذمہ داریاں قبول کرچکا ہے۔ ان حملوں کی آزادانہ تصدیق کرنا تو ممکن نہیں لیکن یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ ٹی ٹی پی پاکستان میں واپسی کی بھرپور کوششیں کررہی ہے۔
رواں سال مارچ کے پہلے ہفتے میں ایک ہی دن میں اسلام آباد اور راولپنڈی میں دو پولیس اہلکار نامعلوم افراد کی فائرنگ سے جاں بحق ہوئے، بعد ازاں ٹارگٹ کلنگ کے ان واقعات کی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان نے قبول کرلی۔
ان حملوں کے بعد پاکستان کے وزیر داخلہ شیخ رشید نے صحافیوں کو بتایا کہ ملک کے بڑے شہروں کراچی، اسلام آباد، لاہور اور پشاور میں تحریک طالبان پاکستان کے حملوں کا خطرہ آج بھی موجود ہے۔
پاکستان کے صوبہ سندھ میں محکمہ انسداد دہشتگردی کے سینئر افسر عمر شاہد حامد نے سماء ڈیجیٹل سے گفتگو میں بتایا کہ تحریک طالبان پاکستان کا سندھ میں کوئی منظم نیٹ ورک موجود نہیں، تاہم اس عسکریت پسند گروہ کی موجودگی کو یکسر مسترد بھی نہیں کیا جاسکتا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’’ٹی ٹی پی کا کراچی کے مختلف علاقوں میں کچھ سالوں پہلے تک ایک منظم نیٹ ورک موجود تھا لیکن اب اس [نیٹ ورک] کا وجود شہر میں نہیں‘‘۔
حالیہ دنوں میں پولیس اور رینجرز کی کارروائیوں میں پاکستانی طالبان کے متعدد مبینہ جنگجو گرفتار یا مارے جاچکے ہیں۔
عمر شاہد حامد کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ تحریک طالبان پاکستان کے ’’سلیپر سیلز‘‘ سندھ میں موجود ہیں اور ان کو ڈھونڈنا اتنا آسان کام نہیں۔
ناراض گروہوں کی تحریک طالبان پاکستان میں واپسی
تحریک طالبان پاکستان کے متعدد دھڑے ملا فضل اللہ کے اس گروہ کے سربراہ بننے کے بعد تنظیم سے علیحدہ ہوگئے تھے لیکن افغانستان میں ان کے مارے جانے کے بعد جب مفتی نور ولی محسود اس تنظیم کے امیر بنے تو علیحدگی اختیار کرنیوالے گروہوں کی واپسی شروع ہوگئی۔
نیویارک میں کومبیٹنگ ٹیررازم سینٹر کی پروفیسر اور انتہاء پسند گروہوں پر گہری نظر رکھنے والی تجزیہ کار ڈاکٹر امیرہ جدون کے مطابق ناراض دھڑوں کی واپسی سے تحریک طالبان پاکستان کو اپنی عسکری صلاحیت بڑھانے میں مدد ملی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’’تجربہ کار اور انتہائی خطرناک گروہوں کی واپسی تحریک طالبان پاکستان کیلئے اپنی عسکری اہلیت بڑھانے کا آسان ترین طریقہ تھا‘‘۔
ناراض دھڑوں کو پاکستانی طالبان سے واپس جوڑنا اس گروپ کے نئے امیر مفتی نور ولی محسود کے ایجنڈے کا حصہ تھا۔
پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا میں مقیم صحافی احسان ٹیپو محسود نے سماء ڈیجیٹل کو بتایا کہ مفتی نور ولی محسود کا ماننا تھا کہ تحریک طالبان پاکستان کو اتنا نقصان فوجی آپریشنز سے نہیں ہوا، جتنا نقصان اسے آپس کی لڑائیوں سے پہنچا ہے۔
احسان ٹیپو محسود کا مزید کہنا تھا کہ ’’وہ (مفتی نور ولی محسود) کہا کرتے تھے کہ تحریک طالبان پاکستان کو تباہ آپسی اختلافات نے کیا‘‘۔
تحریک طالبان پاکستان میں جھگڑوں کی ایک وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ ملا فضل اللہ کا تعلق محسود قبیلے سے نہیں تھا، اس لئے ان کو کبھی بھی متفقہ طور پر تنظیم کا سربراہ نہیں مانا گیا تھا۔
آپسی لڑائیوں کے ساتھ ساتھ پاکستانی افواج کی کارروائیوں نے بھی تحریک طالبان پاکستان کو نقصان پہنچایا اور اس کے زیادہ تر جنگجو پاکستان چھوڑ کر افغانستان میں روپوش ہوگئے۔
احسان ٹیپو محسود کا کہنا تھا کہ ’’شمالی اور جنوبی وزیرستان میں حملوں میں اضافہ ہورہا ہے اور یہ حملے محسود طالبان کی جانب سے کئے جارہے ہیں۔‘‘
دیگر تجزیہ کار یہ بھی کہتے ہیں کہ فوجی کارروائیاں تحریک طالبان پاکستان جیسے گروہوں کو شکست دینے کیلئے کافی نہیں۔
واشنگٹن میں بروکنگز انسٹیٹیوٹ سے منسلک ڈاکٹر مدیحہ افضل کا کہنا ہے کہ پاکستانی ریاست کے تحریک طالبان پاکستان کے خلاف اقدامات صرف فوجی کارروائیوں تک ہی محدود رہے اور معاشرے میں پھیلتی انتہاء پسندی کا سدباب کرنے پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس پہلو پر نظر رکھتے ہوئے اگر سوچا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس گروپ کی واپسی کوئی اچنبھے کی بات نہیں کیونکہ انتہاء پسند سوچ پاکستان میں جوں کی توں موجود ہے۔
تحریک طالبان پاکستان کی نئی حکمت عملی کیا ہے؟
خیبر پختونخوا میں مقیم صحافی احسان ٹیپو محسود کہتے ہیں کہ تحریک طالبان پاکستان نے اپنے حملوں کا محور اس وقت صرف سیکیورٹی فورسز کو بنا رکھا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی طالبان اس وقت قبائلی علاقوں میں لوگوں کے ’’دلوں اور ذہنوں کو جیتنے‘‘ کی حکمت عملی پر عمل پیرا نظر آتی ہے۔
حالیہ دنوں میں صرف تحریک طالبان پاکستان کے حملوں میں ہی تیزی نہیں آئی بلکہ ان کی جانب سے پروپیگنڈا بھی تیز کردیا گیا ہے۔
ہر سال 8 مارچ کو پاکستانی خواتین سڑکوں پر ریلیاں نکالتی ہیں جس کا مقصد اپنے حقوق مانگنا اور پاکستان میں برابری کے حقوق کے مطالبات ارباب اختیار کے سامنے رکھنا ہوتا ہے۔
مختلف تنظیموں کی جانب سے پاکستان بھر میں ’’عورت مارچ‘‘ کا انعقاد گزشتہ 4 سالوں سے کیا جارہا ہے لیکن ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ اس حوالے سے تحریک طالبان پاکستان کا کوئی دھمکی آمیز بیان منظر عام پر آیا ہو۔
عورت مارچ کے انعقاد پر دائیں بازو کی جماعتیں ہمیشہ سے تنقید کرتی آئی ہیں اور ڈاکٹر امیرہ جدون کے مطابق پاکستان طالبان کا دھمکی آمیز بیان کا مقصد ملک میں موجود ’’عورت مارچ‘‘ مخالف جذبات کا سیاسی فائدہ اٹھانا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’’ان کے عورت مارچ مخالف بیان سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ یہاں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی کوشش کررہے ہیں اور ان کا مقصد عورت مارچ مخالف لوگوں تک رسائی حاصل کرنا ہوسکتا ہے‘‘۔
ڈاکٹر مدیحہ افضل بھی اس معاملے پر ڈاکٹر امیرہ جدون سے متفق نظر آتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی ریاست کو تحریک طالبان پاکستان کے بیانات کو روکنے کی ضرورت ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ تحریک طالبان پاکستان کو بھارتی سازش قرار دینا اور اس کی جڑوں کو نظر انداز کرنا ایک ’’گمراہ کن‘‘ پالیسی ہے جس کا صرف نقصان ہی ہوگا۔