کیا یوسف رضاگیلانی کو سینیٹ چیئرمین شپ مل سکتی ہے؟

مسترد شدہ ووٹ اور ماہرین کی آراء

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے امیدوار یوسف رضا گیلانی کو چیئرمین سینیٹ کے الیکشن میں کچھ ووٹ مسترد ہونے کے نتیجے میں حکومت و اتحادیوں کے حمایت یافتہ صادق سنجرانی کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا جسے اپوزیشن نے عدالت میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

اس صورتحال کے بعد ان امکانات پر بحث کا آغاز ہوچکا ہے کہ کیا عدالت میں وہ ووٹ درست قرار دیے جاسکتے ہیں اور یوسف رضا گیلانی کی شکست فتح میں تبدیل ہوسکتی ہے یا ان ووٹس کو مسترد ہی تصور کرلیا جائے گا اور صادق سنجرانی ہی چیئرمین کے عہدے پر برقرار رہیں گے۔

واضح رہے کہ سینیٹ میں جمعہ کے روز ہونے والے چیئرمین سینیٹ کے الیکشن میں کل 100 اراکین میں سے 98 نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا جبکہ جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے پولنگ میں حصہ نہیں لیا اور مسلم لیگ ن کے سینیٹر اسحاق ڈار کا ووٹ بھی نہیں پڑا کیوں کہ وہ ملک میں موجود نہیں۔

پولنگ کے بعد پریزائیڈنگ افسر مظفر حسین شاہ کے اعلان کردہ نتائج کے مطابق نومنتخب چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کو 48 اور پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے امیدوار یوسف رضا گیلانی کو 42 ووٹ ملے جبکہ کل 8 ووٹ مسترد قرار پائے۔ ان 8 مسترد شدہ ووٹس میں سے ایک پر تو دونوں امیدواروں کے ناموں والے خانوں میں مہر لگائی گئی تھی جبکہ دیگر 7 ووٹ ایسے تھے جن میں اراکین نے بیلیٹ پیپر پر مہر یوسف رضا گیلانی کے نام کے عین اوپر لگا دی تھی نہ کہ اس کے برابر والی خالی جگہ پر۔ اس طرح ان ووٹس کو مسترد گردانا گیا۔

سینیٹ الیکشن میں پیش آئی اس صورتحال کے بعد اپوزیشن کا دعویٰ ہے کہ مذکورہ 7 ووٹ چونکہ امیدوار کے نام کے اوپر ہی لگے ہیں اس وجہ سے یہ تکنیکی طور پر مسترد نہیں کہلائے جائیں گے جبکہ حکومت کا کہنا ہے کہ بیلیٹ پیپر پر ہدایت کی رو سے مہر مطلوبہ امیدوار کے نام کے سامنے لگائی جانی چاہیے تھی نہ کہ عین امیدوار کے نام کے اوپر۔

اس حوالے سے سماء ٹی وی سے گفتگو کے دوران سابق الیکشن کمشنر کنور دلشاد کی رائے کے مطابق یہ ووٹ مسترد قرار نہیں دیے جاسکتے۔

سینئر صحافی عدنان عادل نے اس موضوع پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ قاعدے کے مطابق مہر امیدوار کے نام کے سامنے لگائی جاتی ہے تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر اس حوالے سے تھوڑی گنجائش نکالی جائے تو پھر اسے صحیح ووٹ تسلیم بھی کیا جاسکتا ہے۔

سماء ٹی وی اسلام آباد کے بیورو چیف اور سینئر صحافی خالد عظیم کا کہنا تھا کہ یہ الیکشن سینیٹ کے رولز کے تحت ہوئے ہیں لہٰذا الیکشن ٹریبونل کے بجائے مسترد ووٹ کے معاملے میں عدالت سے رجوع کیا جاسکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ لے جایا جاسکتا ہے۔

خالد عظیم نے کہا کہ بیلیٹ پیپر میں امیدوار کے نام کے سامنے خالی جگہ کا مقصد ہی یہ ہے کہ ٹھپہ وہاں لگایا جائے لیکن ممکن ہے عدالت ووٹر کی نیت دیکھتے ہوئے ایسے ووٹ کو صحیح قرار دے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ سابقہ عدالتی فیصلوں میں ایسی مثالیں تو ملتی ہیں کہ ووٹر کی نیت دیکھتے ہوئے ووٹ کو صحیح قرار دیا گیا۔

اس حوالے سے وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ بیلیٹ پیپر پر ووٹ کاسٹ کرنے کیلئے جو ہدایات طے ہیں ان پر سختی سے عملدرآمد کرنا  ہوتا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ قانونی طور پر گنجائش نہیں کہ ہدایت کے برخلاف جگہوں پر مہر لگائے گئے ووٹ کو صحیح قرار دیا جائے۔

دوسری جانب پی ڈی ایم کے رہنماء قمر زمان کائرہ اور احسن اقبال کا میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ووٹ کاسٹ کرنے کی ہدایات میں یہی درج ہے کہ مہر مطلوبہ امیدوار کے خانے میں لگائی جائے۔ ان ووٹس میں اس خانے کے اندر ہی مہر لگائی گئی ہے اس سے باہر تو نہیں لگائی گئی لہٰذا ہمیں عدالت سے پوری امید ہے کہ فیصلہ ہمارے ہی حق میں ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ مہر ثبت کرنے کیلئے کوئی الگ خانہ تو تھا نہیں بلکہ ایک ہی خانہ تھا جس میں امیدوار کا نام بھی درج تھا اور مہر بھی اسی خانے میں لگانی تھی لہٰذا کسی ووٹر کی مہر اگر امیدوار کے نام پر لگ گئی تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ انہوں نے یہ مثال بھی دی کہ بیلیٹ پیپر کو مہر لگانے کے بعد فولڈ بھی اس انداز میں کیا جاتا ہے کہ اگر مہر کی سیاہی پھیل بھی جائے تو وہ اسی امیدوار کے خانے میں رہے نہ کہ اوپر یا نیچے موجود کسی اور امیدوار کے خانے پر اس کی چھاپ لگے۔

واضح رہے کہ چیئرمین کے انتخاب کے بعد سینیٹ میں ڈپٹی چیئرمین کیلئے پولنگ ہوئی جس میں حکومتی امیدوار مرزا محمد آفریدی 54 ووٹ حاصل کرکے کامیاب ہوگئے جبکہ ان کے حریف پی ڈی ایم کے عبدالغفور حیدری نے 44 ووٹ حاصل کیے۔

YOUSUF RAZA GILLANI

senate election

Sadiq Sanjrani

Tabool ads will show in this div