ٹیکس کے بغیر کیسی حب الوطنی؟
بانو قدسیہ کے ناول ''راجہ گدھ'' میں ایک دلچسپ سوال اٹھایا گیا، کیا گدھ اس لئے مردار کھاتا ہے کہ اس میں کسی پرندے یا جانور کا شکار کرنے کی ہمت نہیں ہوتی، یا گدھ چونکہ مردار کھا لیتا ہے اس لئے اس میں کسی پرندے یا جانور کا شکار کرنے کی چاہت نہیں رہتی۔ اسی سوال سے ملتا جلتا ایک اور سوال ہے، کیا تاجر اس لئے ٹیکس نہیں دیتے کہ حکومت وہ رقم دیانتداری سے عوام پر خرچ نہیں کرتی، یا چونکہ تاجر ٹیکس ہی نہیں دیتے تو حکومت عوام پر کچھ خرچ کرنے کی سکت ہی نہیں رکھتی؟، معاملہ بہت گھمبیر ہے۔ فریقین کے پاس اپنے اپنے دلائل ہیں، تاجر ٹیکس نہ دینے کا جواز حکومتی اداروں کی بھتہ خوری اور سرکاری محکموں کی کرپشن کو قرار دیتے ہیں جبکہ حکومتی نمائندوں کا سوال ہے ہر سال نئے نئے پلازے، گھر اور گاڑیاں تو خرید لی جاتی ہیں مگر تاجر حضرات کا زبان پر ایک ہی فقرہ ہوتا ہے ’’جناب گھاٹا پڑگیا‘‘۔
اس ضمن میں تاجروں کا مؤقف کافی کمزور ہے کیونکہ ہم اپنے ارد گرد دیکھ سکتے ہیں کہ ان کے کاروبار کیسے دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کررہے ہیں مگر ٹیکس دینا ان کیلئے وبال جان ہے، حد تو یہ ہے کہ ایک لاکھ روپے ٹیکس دینے کی بجائے 50 ہزار روپے رشوت دینے کو ترجیح دی جاتی ہے۔ حالیہ بجٹ میں حکومت نے بینک ٹرانزکشن پر 0.6 فیصد ود ہولڈنگ ٹیکس نافذ کیا، ساتھ ہی کہا کہ ٹیکس ریٹرنز فائل کرنیوالے اس سے مستثنیٰ ہوں گے مگر تاجر بگڑ گئے، ٹیکس کی شرح 0.3 فیصد کردی گئی مگر تاجر اس پر بھی راضی نہیں، وہ نہ تو ٹیکس دینا چاہتے ہیں اور نہ ہی ٹیکس ریٹرنز فائل کرنے پر راضی ہیں، کیونکہ اس سے ان کی تمام آمدنی، اثاثے اور اخراجات کی تفصیل حکومت کے پاس آجائے گی۔
حکومت کا ہدف تھا کہ ودہولڈنگ ٹیکس سے سالانہ 20 سے 25 ارب روپے اکٹھے کئے جاسکیں، حکومت اور تاجروں کی اسی کشمکش میں بینکوں کے ذریعے لین دین کی بجائے اب نقد ادائیگیوں میں لین دین ہونے لگا ہے، جس سے بینکوں کے ڈپازٹس بھی متاثر ہوئے ہیں اور ماہانہ تقریباً 10 کھرب روپے کی ٹرانزکشن کم ہورہی ہیں۔ تاجروں کے باہمی لین دین میں غیرملکی کرنسی بھی استعمال کی جارہی ہے اور کوئی قانون یا ضابطہ انہیں اس کام سے روک نہیں پارہا۔
تاجر طبقے میں ٹیکس چوری کا کلچر اس قدر سرایت کرچکا ہے کہ کوئی تاجر اگر ایمانداری سے ٹیکس ادا کرنے کی بات کرے تو پوری تاجر برادری اس کے چہرے کی طرف ایسے حیرانگی سے دیکھتی ہے جیسے انہیں اس کی ذہنی کیفیت پر شک ہو۔ ہمارے تاجر مختلف سرکاری محکموں کو رشوت دینے میں بہت فراخدل واقع ہوئے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ آج تک انہیں ٹیکس نیٹ میں لانے کی کوئی سنجیدہ کوشش ہی نہیں کی گئی، پنجابی زبان کا محاورہ جس میں کتیا اور چوروں کا ذکر ہے اس معاملے پر صادق آتا ہے۔
افسوسناک بات ہے کہ 20 کروڑ آبادی میں سے تقریباً 9 لاکھ افراد ٹیکس نیٹ میں آتے ہیں جو صرف 0.49 فیصد بنتے ہیں، یعنی 1 فیصد پاکستانی بھی ٹیکس نیٹ میں شامل نہیں۔ گذشتہ کئی سال کی طرح مالی سال 15-2014ء میں بھی فیڈرل بورڈ آف ریونیو ٹیکس وصولی کا ہدف حاصل نہیں کر سکا، مجموعی ٹیکس وصولی ہدف سے 25 ارب روپے کمی کے بعد 25 کھرب اسی ارب روپے رہی۔ اب رواں مالی سال کیلئے یہ ہدف 31 کھرب روپے سے زائد رکھا گیا ہے جو پورا ہوتا نظر نہیں آتا۔
اقتصادی ماہرین کہتے ہیں سالانہ ٹیکس وصولی آسانی کے ساتھ 5 ہزار ارب روپے تک لے جائی جاسکتی ہے جو ملکی خود مختاری کی جانب اہم قدم ثابت ہوگی۔ تاجروں کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ حب الوطنی کا اظہار صرف آرمی چیف کی تصویروں والے بینرز لگانے سے نہیں بلکہ ٹیکس دینے سے ہوگا، آپ ٹیکس دیں گے تو بیرونی غلامی بھی ختم ہوگی اور فوج سمیت تمام ادارے بھی مضبوط ہوں گے۔