مصباح الحق کی نوکری خطرے میں کیوں ہے؟

کارکردگی کے باعث ہیڈکوچ تنقید کی زد میں

پاکستان کرکٹ ٹیم کے ہیڈ کوچ مصباح الحق دورہ نیوزی لینڈ کے حالیہ دورے پر قومی ٹیم کی مایوس کن کارکردگی کے بعد شدید دباؤ میں ہیں۔

نیوزی لینڈ کے خلاف دوسرے ٹیسٹ میں شکست کے بعد سے یہ اطلاعات گردش کررہی ہیں کہ پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) ٹیم کی آمد کے بعد مصباح الحق کی بطور کوچ کارکردگی کا جائزہ لے گا۔

ہم اس بارے میں تفصیل سے ایک نظر ڈالتے ہیں کہ سابقہ مڈل آرڈر بیٹسمین کو 2022 کے آئی سی سی ورلڈ ٹی20 تک کوچنگ کا ٹاسک سونپے جانے کے فوری بعد ہی ان کی پوزیشن خطرے میں کیوں پڑگئی۔

مصباح کا عہدہ خطرے میں کیوں ہے؟

مصباح کی کوچنگ کے تحت قومی کرکٹ ٹیم کی کارکردگی تواتر کے ساتھ خراب رہی ہے۔ اس کا آغاز ٹی20 میں سری لنکا کی کمزور ٹیم کے خلاف ہوم سیریز میں حیرت انگیز طور پر شکست سے دوچار ہوئی جس کے نتیجے میں وکٹ کیپر کپتان سرفراز احمد کو عہدے سے ہٹا کر بابراعظم کو ون ڈے اور ٹی 20 کا کپتان بنا دیا گیا تھا۔

پاکستان ٹیم کی خراب کارکردگی کا سلسلہ دورہ آسٹریلیا کے دوران اور پھر انگلینڈ میں بھی جاری رہا اور اب نیوزی لینڈ میں بھی قومی ٹیم کو خفت آمیز شکست کا سامنا رہا۔

اس دوران راولپنڈی میں کھیلے جانے والے ایک عالمی ون ڈے میچ میں گرین شرٹس کو حیرت انگیز طور پر عالمی رینکنگ میں 14 واں نمبر رکھنے والی زمبابوے کی ٹیم کے خلاف بھی شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

مصباح کی جگہ کون سنبھالے گا؟

مختلف میڈیا رپورٹس میں زمبابوے کے سابق وکٹ کیپر اور کپتان اینڈی فلاور کے ساتھ ساتھ جنوبی افریقہ کے سابق اوپننگ بلے باز 46سالہ گیری کرسٹن کا نام  بھی پاکستان ٹیم کے آئندہ ہیڈ کوچ کے طور پر لیا جا رہا ہے۔

فلاور نے انگلینڈ کی کرکٹ ٹیم کے ساتھ ہیڈ کوچ کی حیثیت سے کام کیا ہے اور انگلینڈ کو2011 میں ٹیسٹ فارمیٹ میں پہلے نمبر پر پہنچا دیا۔ انہوں نے پاکستان سپر لیگ میں پشاور زلمی فرنچائز کے ساتھ 2016 میں بیٹنگ کوچ کی حیثیت سے بھی کام کیا ہے اور پانچویں ایڈیشن میں وہ ملتان سلطانز کے ہیڈ کوچ تھے۔

دوسری جانب جنوبی افریقہ سے تعلق رکھنے والے 52سالہ گیری کرسٹن بھارتی ٹیم کے ہیڈ کوچ کی حیثیت سے خدمات انجام دے چکے ہیں جہاں انہوں نے بھارتی ٹیم کو 2011کے آئی سی سی ورلڈ کپ کا فاتح بنوایا۔

انہوں نے 2013-2011 سے جنوبی افریقی قومی ٹیم کے ساتھ کام کیا اور بعد میں آئی پی ایل میں بی بی ایل اور رائل چیلنجرز بنگلور میں ہوبارٹ ہیری کین سے وابستہ رہے۔

پی سی بی نے مقامی کوچ کا انتخاب کیوں کیا؟

اس پر اکثر بحث رہتی ہے کہ آیا پاکستان کرکٹ ٹیم کو کسی غیر ملکی ہیڈ کوچ کی ضرورت ہے یا پھر اس مقصد کے لیے کسی مقامی کا ہی انتخاب بہتر ثابت ہوسکتا ہے لیکن اس کا کوئی حتمی جواب نہیں دیا جاسکا۔

مقامی کوچ کے انتخاب کی ایک بنیادی وجہ مالی پہلوؤں پر مبنی ہے کیونکہ مقامی اہلکار اپنے غیر ملکی ہم منصبوں کے مقابلے میں پی سی بی کے لئے بہت زیادہ مالی طور پر قابل عمل ہیں۔

غیر ملکی کوچز کو دی جانے والی خطیر تنخواہوں کے علاوہ پی سی بی کو پاکستان آمد پر ان کے متواتر ہونے والے سفر کے اخراجات اٹھانے کے ساتھ ساتھ خاص سیکیورٹی اور رہائش پر بھی بہت زیادہ خرچہ کرنا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ مقامی کوچ کو ترجیح دیے جانے کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ پی سی بی میں کچھ لوگ شاید یہ سوچتے ہوں کہ کسی غیر ملکی کی نسبت مقامی کوچ کھلاڑیوں کی کارکردگی زیادہ باریک بینی اور بہتر انداز میں دیکھ سکے گا۔

تاہم اس کے برعکس مقامی کوچ کی موجودگی میں ٹیم کے اندر سیاست اور گروپ بندی کی اطلاعات نسبتاً زیادہ موصول ہوتی ہیں۔

تبولا

Tabool ads will show in this div

تبولا

Tabool ads will show in this div