جمہوریت کا انتقام
عمار مسعود
پنجاب جو کبھی پیپلز پارٹی کا گڑھ تھا اب نہیں رہا۔ یہی پنجاب تھا جہاں بھٹو کا آخری جلسہ، بے نظیر کی آمد اور الیکشن کی بڑی بڑی مہمات پارٹی کی جانب سے سر کی جاتی تھیں اور اب یہ بات بلدیاتی الیکشن میں روز روشن کی طرح واضح ہو گئی کہ اب اس پارٹی کا نام لیوا اس صوبے میں کوئی نہیں۔ لالہ موسی بھی پارٹی کا کمال نہیں کائرہ صاحب کی شخصیت کا اعجاز ہے۔
المیہ یہ ہے کہ ایک زمانہ تھا کہ جب اسی پنجاب کے برتے پر پیپلز پارٹی دعوی کرتی تھی کہ وہ کسی کھمبے کو ٹکٹ دیں تو وہ بھی جیت جائے گا اور اب یہ وقت ہے کہ پیپلز پارٹی کسی جیتے جاگتے زندہ انسان کو ٹکٹ دیتی ہے تو وہ بھی کھمبے کی طرح بے بس، بے جان اور بے حس دکھائی دیتا ہے۔ ایک دور تھا جب روٹی، کپڑے اور مکان کا نعرہ دلوں میں بستا تھا اور اب یہی نعرہ بھوکے، ننگے ووٹروں کو روز ڈستا ہے۔ ایک دور تھا جب ہے جمالو اور مست قلندر کی تھاپ سارے پنجاب میں گونجتی تھی اور اب یہ دور ہے کہ پارٹی کے نام پر، کرپشن کے ہر الزام پر سناٹا چھا جاتا ہے۔ پہلے یہ پارٹی لوگوں کے دلوں میں رہتی تھی اور اب اسی پارٹی میں انتخابی نتائج کا خوف امیدواروں کے دلوں کو سہمائے رکھتا ہے۔ ایک وقت تھا جب لوگ اس پارٹی کے لیے جان دیتے تھے اور اب یہ وقت ہے کہ لوگ پارٹی کے نام سے اپنی جان بچاتے پھرتے ہیں۔ ایک وقت تھا جب یہ کہا جاتا تھا کہ پیپلزپارٹی کا جیالا کبھی اپنی وفاداری نہیں بدلتا اور اب یہ وقت ہے کہ وفادار ووٹر کے پاس لیڈروں کی بے وفائی کی داستانوں کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ ایک وقت تھا جب ہر گھر میں بھٹو زندہ تھا اور اب یہ وقت ہے کہ پارٹی نے کرپشن کے قبرستان میں بھٹو کی تدفین کر دی، اور عرس منانے کو بھی کوئی تیار نہیں۔ ایک دور تھا جب لوگ تیر کے نشان کو سینے سے لگا کر رکھتے تھے اور اب یہ وقت ہے کہ وہی تیر وفادار جیالوں کے سینوں میں گڑا ہوا ہے۔ سوچئیے تو: وقت، پیپلز پارٹی کو کہاں لا کر کھڑا ہوا ہے؟
پنجاب کے عوام کو ادراک ہو گیا کہ پیپلز پارٹی کا گذشتہ پانچ سال کا دور حکومت کرپشن، بد عنوانی، بد انتظامی اور اقرباء پروری کی بدترین مثال ہے۔ کوئی ایک منصوبہ ایسا نہیں شروع ہوا جس میں عوامی فلاح کا پہلو پیش نظر ہو۔ کوئی ایک ایسا پراجیکٹ نہیں لگا، جس پر ہم فخر کر سکیں۔ کوئی ایک ایسی سکیم سامنے نہیں آئی جس میں کمیشن کا چرچا نہ ہو۔ کوئی ایک وزارت ایسی نہ نکلی جس نے اپنی کارکردگی سے لوگوں کو متاثر کیا ہو۔ کوئی ایک ادارہ ایسا نہیں جس میں بددیانتی اور رشوت خوری کا چرچا نہ ہو۔ کوئی ایک دعوی، نظریہ اور نعرہ ایسا نہیں جس پر لیڈران کرام قائم رہے ہوں۔ کوئی ایک واقعہ ایسا نہیں جو باعث عزت ہو۔ ندامت کا ایک پہاڑ ہے اور پارٹی کی داستان ہے لوگو۔
ہمارے جیسے ملک میں کرپشن کے ایک دو سکینڈل سے سیاسی جماعتوں پر کوئی خاص حرف نہیں آتا، مگر زرداری دور میں تو یہ سلسلہ رکنے کا نام نہیں لیتا تھا۔ بے نظیر انکم سپورٹ پر بات کریں تو مظلوموں کا حق مار لیا گیا ۔ این آئی سی ایل پر بات کریں تو کھربوں غبن ہو گئے۔ ٹڈاپ میں پارٹی کی سینیئر قیادت خود ملوث نظر آتی ہے۔ رینٹل پاور میں وزیر اعظم خود ملزم تھے۔ ترک صدر کی طرف سے سیلاب زدگان کی امداد کے لیے عطیہ دیا گیا، ترکی کی خاتون اول کا ہار بھی ہڑپ کرنا چاہا گیا۔ اور تو اور حج کرنے والوں کو بھی نہ چھوڑا گیا۔ حاجیوں سے نقد کی صورت میں ثواب حاصل کیا جاتا رہا۔ دست راست ڈاکٹر عاصم کی وزارت کے معاملات کی کچھ خبر اب ہو رہی ہے۔ ایان علی کیس اب سامنے آ رہا ہے۔ شرجیل میمن کے پاس سے اربوں اب برآمد ہو رہے ہیں۔ آصف زرداری، یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف کو تو چھوڑیں، منسٹروں نے نقد رقمیں طلب کرنا شروع کر دی تھیں۔ غرض جس کو جتنا موقع ملا اس نے اتنا لوٹا۔ جب بڑے سے ایوان صدر کے چھوٹے چھوٹے کمروں میں سلمان فاروقی معاملات طے کرتے تھے، تو کسی نے بھی نہ سوچا کہ ملک میں آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے میں آئندہ بھی الیکشن ہونا ہے۔ عوام کی عدالت لگنی ہے۔ لوگوں کو ایک دن جوابدہ ہونا ہے۔
مزید براں ایک دلچسپ خبر سامنے آئی کہ دوبئی میں منعقدہ ایک اجلاس میں پارٹی لیڈروں نے آصف علی زرداری کی قیادت پرعدم اعتماد کا اظہار کر دیا ہے، اور کہا کہ سابق صدر کی تصویر اب کسی انتخابی مہم کے دوران کسی پوسٹر پر آویزاں نہیں کی جا سکتی۔ جان سستے میں بچانے کا اس سے بہتر ڈرامہ نہیں ہو سکتا۔ یہ سارے پارٹی لیڈر اس وقت نہیں بولے جب کرپشن کا بازار گرم تھا۔ ان مصلحین کی آواز اس وقت کہاں گم تھی جب لوگ غربت سے خود کشیاں کر رہے تھے۔ ان پارٹی عہدے داروں نے اس وقت کیوں نہیں علم بغاوت بلند کیا جب شدید لوڈ شیڈنگ سے لوگوں کے کاروبار تباہ ہو گئے۔ اب جب سب کچھ لپٹ چکا ہے، اپنے اپنے حصے الگ ہو گئے ہیں، مال سمیٹا جا چکا ہے، سرمایہ بیرون ملک منتقل ہو چکا ہے تو اچانک بغاوت کا سودا کیوں سر میں سمایا ہے؟ نابلد اور ناسمجھ بلال کو اس وقت کون آگے لایا ہے؟
وہ پارٹی جسکا ضیاءالحق جیسا شاطر آمر بھی بال بیکا نہ کر سکا، وہ پارٹی جس نے بھٹو کی موت کے بعد بھی بھٹو کو زندہ رکھا، وہ پارٹی جوہر عتاب کے بعد، ہر بحران کے بعد بھی عوام الناس میں مقبول رہی، وہ پارٹی اپنے ہی دور حکومت کی تاب نہ لا سکی۔ عوام کے عتاب کو نہ سہہ سکی۔ اب انتخابات چاہے سارے ملک میں ہوں، یا صوبائی سطح پر، ضمنی ہوں یا بلدیاتی، پیپلز پارٹی کا نوشتہ دیوار کوئی نہیں مٹا سکتا۔ گرتی ہوئی اس زنگ آلود، بوسیدہ عمارت کو کم از کم پنجاب میں کوئی نہیں بچا سکتا۔
سندھ جب تک جہالت، غربت اور افلاس میں ڈوبا ہے وہاں کچھ نہیں بدلے گا۔ وہاں غربت کے اندھیروں میں بھٹو کا بھوت ناچتا رہے گا۔ لیکن پنجاب میں بلدیاتی انتخاب کے مرحلہ۔ یہی ایک امتحان کافی ہے۔ جو کچھ پیپلز پارٹی کے ساتھ ان انتخابات میں ہونے والا ہے وہ اب کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ کھربوں کی کرپشن کرنے والے، اربوں کے غبن نپٹانے والے، کڑوڑں کے گھپلے کرنے والے، پانچ سال عوام کو ستانے والے کہاں جائیں گے۔ یہ بات اب لوگ اپنے ووٹ سے بتائیں گے۔
بس ذرا یہ سسٹم چلنے دیں۔ جمہوریت کو کچھ سنبھلنے دیں۔ سار کچرا نالیوں میں بہہ جائے گا۔ بس ایک عوام کا فیصلہ ہے جو رہ جائے گا۔ یاد رکھیئے، لوگ دیکھ رہے ہوتے ہیں، لوگ ہر چیز کو بغور دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ عوام کو سادہ لوح سمجھنے والے یہ نہیں جانتے کہ لوگوں کی ہمت بھی ایک مقام پر جواب دے جاتی ہے۔ حوصلہ ٹوٹ جاتا ہے۔ بلاجواز وفاداری کا حلف لوگوں کو بھول جاتا ہے۔ یہ موقع ہوتا ہے جب لوگ اپنا فیصلہ سنا دیتے ہیں۔ خود واقعات کی باگ بڑھ کر تھام لیتے ہیں۔ لوگ جمہوریت کے ذریعے انتقام لیتے ہیں۔