فرانس: کیامتنازع قانون مسلمانوں کیخلاف ہے؟

فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکرون کو فرانس میں حملوں کے سلسلے کے بعد متنازع قانون کی منظوری کیلئے اپنی کابینہ کی حمایت درکار ہے، جس کا مجوزہ مسودہ بحث کے لیے کابینہ کے سامنے بدھ کو پیش کیا گیا، یہ کہا جارہا ہے کہ یہ بل مسلمانوں کو نشانہ بنا سکتا ہے۔
اس قانون سازی کے تحت کسی شخص کی ذاتی زندگی، اہل خانہ یا پیشہ ورانہ زندگی کے بارے میں معلومات پھیلانا جس سے ان کی شناخت ممکن ہو اور ان کی زندگی کو خطرہ لاحق ہو اس جرم کی سزا تین سال کی قید اور 45 ہزار یورو تک جرمانہ ہے۔
مذہبی گروہوں کو دس ہزار یورو سے زائد کے عطیات کو ظاہرکرنا ہوگا،جس کا مقصد مذہبی مقامات پر بیرونی اثر و رسوخ کو کمزور کرنا ہے۔ کوئی بھی ایسا گروپ یا ادارہ جو حکومتی سبسڈی طلب کرے گا، اس سے جمہوری اقدار کے احترام کے معاہدے پر دستخط کرنے کا کہا جائے گا اگر وہ اس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہیں تو ان کو دیے جانے والی رقم زبردستی واپس وصول کی جائے گی۔
میکرون کا کہنا ہے کہ فرانس کے سخت سیکولر نظام کو مضبوط بنانے کے لیے اس قانون سازی کی۔
Any so-called information pertaining to alleged intent to register children being schooled in France based on religion, belief or origin, is absolutely false.
— France Diplomacy?? (@francediplo_EN) November 22, 2020
فرانسیسی وزیراعظم جین کاسٹیکس نے بدھ کے روز اخبار لی مونڈے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ شدت پسند اسلام، جمہوریہ فرانس کا دشمن نظریہ ہے جس کا مقصد فرانسیسیوں کو تقسیم کرنا ہے۔
اس سے قبل فرانسیسی وزارت خارجہ نے 22نومبر کو اپنی ٹوئٹ میں کہا تھا کہ قانون مسلمانوں کے کیخلاف نہیں اور نہ ہی کسی قسم کی کوئی پابندیاں عائد کی جارہی ہیں۔
اہنےٹوئٹ میں فرانسیسی وزارت خارجہ نے مزید کہا تھا کہ 12ملین بچے پہلے ہی رجسٹرڈ ہیں اور اندراج کا عمل مکمل ہوگا جس میں گھریلو اسکول کے بچوں شامل ہیں۔