دنیاکی دوسری بلندچوٹی کےٹو پر نئی تاریخ رقم کرنیکی تیاریاں
دنیا کی دوسری بلند چوٹی "کے 2" کو موسم سرما میں سر کرنے کیلئے کوہ پیماؤں کی ٹیم نئی تاریخ رقم کرنے کیلئے اپنی منزل کا آغاز کریگی۔
کوہ پیماؤں کی ٹیم آج رات منفی 50 ڈگری کے سخت موسمی حالات میں آج کا دن کیمپ تھری میں گزاریں گے۔ جس کے بعد رات1 بجے 10 نیپالی کوہ پیماؤں کی ٹیم کیمپ 4 کیلئے روانہ ہوگی۔ کوئی رکاوٹ نہ آئی تو کل دوپہر 1 بجے تک یہ کوہ پیما تاریخ رقم کرسکتے ہیں۔ دنیا کی 14 بلند ترین چوٹیوں میں سے 13 کو موسم سرما میں سر کیا جا چکا ہے ۔ صرف کے ٹو دنیا کی واحد چوٹی ہے جوموسم سرما میں اب تک سر نہیں کی گئی ہے۔
اس سال پاکستان سمیت سلووینیا، نیپال، چین اور آئس لینڈ کے کوہ پیماؤں کی ٹیمیں بھی قسمت آزمائی میں مصروف ہیں۔ جمعہ کے روز کیمپ 4 پہنچنے والے نیپالی ٹیم کی سربراہی مینگما گیلجے، جب کہ پاکستان کے کوہ پیماؤں پر مشتمل کوہ پیماؤں کے ٹیم کی کمان آئس لینڈ کے جان اسنوری ٹیم لیڈر کے حیثیت سے سنبھال رہے ہیں۔
ہیں کوہ پیماؤں کے ٹیم لیڈر جان اسنوری نے سوشل میڈیا پر جاری کئے گئے پیغام میں کہا ہے کہ ان کی ٹیم کیمپ 3 پہنچ گئے ہیں۔ موسم سازگار رہے گا تو جلد خوشخبری دیں گے۔
دوسری جانب نیپالی کوہ پیماؤں کا ٹیم کے ٹو پر مہم جوئی آخری مرحلے میں داخل ہوگئے ہیں۔ ٹیم لیڈر مینگما گیلجے نے سوشل میڈیا پر کے ٹو کیمپ 4 سے جاری پیغام میں کہا ہے کہ آج فیصلہ کن راونڈ پر مشتمل سفر شروع کرنے اور جلد کے ٹو سر کر کے تاریخی کارنامہ انجام دینے کا عزم رکھتے ہیں۔ مینگما گیلجے نے نیپالی قوم کو جشن کی تیاری کا پیغام بھی دیا ہے۔
قبل ازیں کے 2 پہاڑ کی سرمائی مہم جوئی کرنے والی ٹیم بیس کیمپ پر گزشتہ سال 6 دسمبر کو پہنچی۔ کے ٹو بیس کیمپ 4 ہزار 900 میٹر کی بلندی پر واقع ہے۔ گلگت بلتستان کا ضلع شگر میں کے 2 کا بیس کیمپ قائم ہے، جہاں یہ ٹیم پہنچی۔ چوٹی سر کرنے کیلئے موسم کی صورت حال کا جائزہ لینے کے بعد یہ ٹیم کیمپ ون روانہ ہوئی۔
کوہ پیماؤں کی ٹیم میں آئس لینڈ کے کوہ پیما جان اسنوری، پاکستان کے محمد علی سد پارہ اور ان کا بیٹا بھی شامل ہے۔ ٹیم نے 2 روز بیس کیمپ میں آرام کے بعد مہم جوئی کا آغاز کیا۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ کے ٹو پہاڑ کو آج تک کبھی موسم سرما میں سر نہیں کیا جا سکا ہے۔
یہ کوہ پیما سرمائی ایکسپیڈیشن کا حصہ ہیں۔ کے ٹو موسم سرما میں سخت موسمی حالات کے باعث کبھی سر نہیں ہوا۔ بہت لوگ موسم سرما میں یہ چوٹی سر کرنے کی کوشش کرتے ہیں، مگر کامیاب نہ ہوسکے۔
کے 2
پاکستان کا شمالی پہاڑی علاقہ 3 پہاڑی سلسلوں ہمالیہ، قراقرم اور ہندوکش کے ملاپ کی جگہ بھی ہے۔ دنیا کی بلند ترین چوٹیوں میں سے تین اسی علاقے میں واقع ہیں۔ کے ٹو ان میں سے ایک ہے، جس کی بلندی 8611 میٹر( 28251 فٹ) ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس کی بلندی 8611 میٹر/28251 فٹ ہے۔ اسے ماؤنٹ گڈون آسٹن اور شاہگوری بھی کہتے ہیں۔

کے 2 کی دریافت
تاریخ پر نظر دوڑائے تو کچھ رپورٹ میں اس چوٹی سے متعلق درج ہے کہ یہ چوٹی سال 1856 میں اس وقت دریافت ہوئی، جب پہلی بار گڈون آسٹن نے یہاں کا سروے کیا۔ اس موقع پر تھامس ماؤنٹ گمری بھی اس کے ہمراہ تھے۔
اس وجہ سے یہ چوٹی ان کے نام سے منسوب کردی گئی۔ یہ چوٹی سلسلہ کوہ قراقرم کی دوسری بلند ترین چوٹی ہے۔ اس چوٹی کے خط تقریباً عمودی ہیں، جس کی وجہ سے یہ خطرناک اور قاتل ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ایک رپورٹ کے مطابق 80 سے زائد کوہ پیما اسے سر کرنے کی خواہش میں اپنی جانوں سے گئے۔ ان چڑھائیوں میں ‘بوٹل نیک’ وہ خطرناک ترین مقام ہے جہاں کئی کوہ پیما ہلاک ہوئے۔
کے ٹو کو ماؤنٹ ایورسٹ کے مقابلے میں زیادہ مشکل اور خطرناک سمجھا جاتا ہے۔ کے ٹو پر اب تک ایک اندازے کے مطابق 246 افراد چڑھ چکے ہیں۔ کے 2 اپنی خطرناک چڑھائیوں ڈھلانوں کی وجہ سے وحشی یا ظالم پہاڑی چوٹی بھی کہلائی جاتی ہے۔
اشرف امان وہ ہہلے پاکستانی ہیں، جو اس چوٹی پر چڑھے۔ یہ چوٹی پاکستان اور چین کی سرحد کے قریب گلگت بلتستان میں واقع ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی چوٹی ماؤنٹ ایوریسٹ ہے۔
سر کرنے کیلئے بہترین موسم
کے ٹو کو سر کرنے کیلئے جون تا اگست بہترین مہینے ہیں باقی سال یہاں کا موسم کوہ پیمائی کیلئے انتہائی نامناسب ہوتا ہے۔ مقامی روایت کے مطابق روایت کے مطابق ہر 4 برس بعد اس چوٹی کی جانب بڑھنے والوں میں سے کوئی 1 ہلاک ہو جاتا ہے۔ 6 ہزار میٹر تک تو اس پہاڑ پر چٹانیں ہیں اور اس کے بعد برف کا ایک سمندر ہے۔
بہترین روٹ
اس چوٹی کو سر کرنے کیلئے زیادہ تر ابروزی روٹ اختیار کیا جاتا ہے، جو کٹھن اور خطرناک ہونے کے باوجود تکنیکی بنیادوں پر استعمال کیا جانے والا راستہ ہے۔ بہت سے پاکستانی اس بات سے لاعلم ہوں گے کہ’کے ٹو 2014 پاکستان مہم‘ کے ارکان کوہ پیما پاکستان کے مضبوط ترین افراد میں شامل ہیں، ان میں اکثر افراد بطور گائیڈ، کوہ پیما اور بلندی پر سامان لے جانے کا کام کرتے ہیں، ان میں اکثر افراد 7000 اور 8000 میٹر کے بلند پہاڑوں کا قابل فخر کام کر چکے ہیں۔
پاکستان کا اعزاز
نذیر صابر پاکستان کا وہ سرمایہ افتخار ہیں، جنہوں نے کے 2 کو مغربی چڑھائی کی طرف سے سر کرکے تاریخ ساز کارنامہ انجام دیا۔ سال 1981ء میں کی جانے والی اس کوہ پیمائی میں نذیر صابر کے ساتھ جاپانی کوہ پیما شامل تھے، جب کہ مہربان شاہ، رجب شاہ اور حسن سدپارہ بھی کے ٹو کی بلندیوں کو چھو چکے ہیں۔ سال 2014 میں پہلی بار پاکستانی کوہ پیما اور گائیڈز پر مشتمل ٹیم نے اطالوی کوہ پیماؤں کے ساتھ کے ٹو کی چوٹی پر قدم رکھ کر اسے سر کرنے کے 60 سال پورے ہونے کا جشن منایا۔ اس ٹیم میں شامل کوہ پیما کا تعلق گلگت بلتستان کے علاقوں سدپارہ، شگر اور ہوشے سے تھا۔
ڈرون بھی نہ پہنچ سکا
کے 2 کی عکس بندی ڈرون کے ذریعے پہلی بار سال 2016ء میں کی گئی، تاہم یہ 6 ہزار میٹر تک ہی ممکن ہو سکا۔ اس کے بعد کے 2 کے نگہبان موسم نے ڈرون کو پرواز کی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔
سفر نامے
پاکستان کے نامور مصنف اور سفر نامہ نگار مستنصر حسین تارڑ نے بھی اس قاتل چوٹی پر کتابیں لکھیں۔
ہالی ووڈ فلم
ہالی ووڈ کی جانب سے بھی کے2 پر ورٹیکل لمٹ سمیت متعدد کامیاب فلموں کو فلمایا گیا۔
دنیا کے بلند ترین پہاڑ پاکستان میں
پاکستان میں دنیا کے 8000 میٹر بلند 14 پہاڑوں میں سے 5 موجود ہیں جن میں کے ٹو، گشرم برم ون، گشرم برم ٹو، بورڈ پیک اور نانگا پربت شامل ہیں، اس کے علاوہ 6000 میٹر سے 7000 میٹر کے سر نہ کیے جانے والے کئی بلند پہاڑ بھی ہیں۔
براڈ پیک
کے 2 کی ہمسایہ چوٹی براڈ پیک بھی 8 ہزار سے بلند پہاڑی چوٹیوں میں سے ایک ہے، جو پاکستان کے شمالی علاقے میں واقع ہے۔ بلتی زبان میں اسے فَلچن کنگری پکارا جاتا ہے۔ یہ کوہ قراقرم کی بلند ترین چوٹی ہے۔ اس کو سر کرنے والے ایرانی کوہ پیما رامین شجاعی بھی یہاں آئے تھے۔