بلدیاتی انتخابات کی شفافیت
پنجاب اور سندھ میں بلدیاتی انتخابات کا پہلا مرحلہ مکمل ہوا، ان انتخابات کا واویلا گذشتہ 6 سال سے سنائی دے رہا تھا، کبھی سابق صدر زرداری نے وعدہ کیا کہ جنرل الیکشن سے پہلے یہ انتخابات ہو جائیں گے تو کبھی شہباز شریف نے نوید سنائی کہ جلد از جلد ہوجائیں گے مگر خلاف معمول سب سے پہلے بلوچستان بازی لے گیا اور پھر پختونخوا میں بھی اختیارات نچلی سطح تک پہنچانے کیلئے لوکل باڈیز الیکشن کروائے گئے، عدالتوں کے بار بار اصرار اور دوسرے صوبوں میں ان انتخابات کے بعد لگتا یہی ہے کہ پنجاب اور سندھ میں یہ بادل ناخواستہ ہی کروائے گئے۔
ان انتخابات کے کتنے ثمرات ملتے ہیں یہ تو وقت ہی بتائے گا، یعنی فنڈز اور اختیارات نچلی سطح پر جاتے ہیں یا نہیں اس کا فیصلہ ہونا باقی ہے کیونکہ قیاس آرائیاں یہی ہیں کہ شاید اختیارات نچلی سطح تک منتقل نہ کئے جائیں، اس صورت میں یہ انتخابات مینگنیوں بھرا دودھ ہی ثابت ہوں گے، پہلے مرحلے کے دوران پنجاب اور سندھ میں جو کچھ ہوا وہ سب کے سامنے ہے، پوری دنیا میں زیادہ تر انتخابات خوشگوار تبدیلی کا ذریعہ ہوتے ہیں اور بہت ہی احسن طریقے سے انجام پاتے ہیں مگر ہمارے ملک میں یہ کسی جنگ سے کم نہیں، ہماری یہ حالت ہے کہ اگر الیکشن کے دوران کوئی جانی نقصان یا دنگا فساد نہ ہو تو پریشانی شروع ہوجاتی ہے کہ یہ کیسا الیکشن تھا۔
پہلے مرحلے کے الیکشن نے بہرحال کسی کو مایوس نہیں کیا، سندھ میں 11 جانیں گیئں اور پنجاب میں 2 افراد جاں بحق ہوئے، کہیں کسی کی ٹانگیں ٹوٹیں تو کسی پر حملہ ہوا، کہیں ٹھپے لگاتے ہوئے عورتوں کی حکمرانی تھی تو کہیں عورتوں کو ووٹ ہی نہ ڈالنے دیا گیا، کہیں کوئی اسلحے کے ساتھ پایا گیا تو کہیں اسلحہ چلایا بھی گیا، کہیں میڈیا کو روکا گیا تو کہیں اسی میڈیا کا سہارا بھی لیا گیا، کہیں حریف سامنے آئے تو کہیں ایک ہی جماعت کے 2 گروپس، مگر الیکشن کمیشن ہے کہ خوشی سے قلابازیاں لگارہا ہے کہ بہت اچھا اور پُرسکون الیکشن کروادیا، دونوں صوبوں کے حکمران بھی پھولے نہیں سما رہے۔
یہ سب دیکھ کر تو لگتا ہے گویا جو جانیں ضائع ہوئیں وہ انسانی نہیں جانوروں کی تھیں اور سندھ میں چونکہ 11 جاں بحق ہوئے تو پنجاب کی جانوں کا ذکر بھی خود پر تنقید کو دعوت دینے کے مترادف ہے کیونکہ ہماری گھٹی میں ہے کہ وہ الیکشن ہی کیا جس میں کوئی جان نہ جائے، 36 اضلاع کے صوبے میں سے 10 اضلاع میں الیکشن کروانا کیا تھوڑی بڑی کامیابی ہے؟، اس کا جشن تو بنتا ہے کیونکہ جس صوبے کے 8 اضلاع میں الیکشن تھا، وہاں 11 افراد کی جان گئی اور 10 ضلعوں والے میں صرف 2 افراد موت کے شکار ہوئے، کون ہے جو اس کامیابی کو نظر انداز کرے گا؟، کس میں ہمت ہے جو تعریف نہ کرے؟۔
رہ گئی ان انتخابات کی شفافیت تو ویسے بھی کوئی جماعت جیت حاصل کرتی ہے یا پھر دوسری جماعت کے ساتھ دھاندلی ہوتی ہے، جس طرح شکست کھانے والوں کیلئے پُرامن اور شفاف الیکشن کا منہ بولتا ثبوت کوئی معنی نہیں رکھتا، اسی طرح جیتنے والوں کیلئے صرف فتح ہی سب کچھ ہے، بس فتح ملنی چاہئے، وہ پولیس کی مدد سے ملے یا ریٹرننگ آفیسر کی مدد سے، الیکشن کمیشن کی کوتاہی سے یا پیسے کے بل بوتے پر۔
بے مثال الیکشن کروانے کے بعد الیکشن کمیشن نے بڑے فخر سے کہا کہ صرف 50 کے قریب شکایات موصول ہوئیں اتنے شاندار الیکشن کے بعد لگتا ہے یہ فافن والوں کا بھی دماغ خراب ہوگیا ہے جو کہے جارہے ہیں کہ دوبارہ وہی جنرل الیکشن کی طرز کا الیکشن تھا اور اسی قسم کی شکایات موصول ہوئیں، فافن کو تو شکر ادا کرنا چاہیے تھا کہ ایک دن پہلے ان کو الیکشن کا مشاہدہ کرنے کی اجازت ملی اور وہ اس قسم کی رپورٹس سامنے لارہے ہیں۔
شاندار الیکشن کروانے کا سب سے بڑا سہرا تو پولیس کے سر باندھا جانا چاہیے کہ زیادہ ہلاکتیں نہیں ہوئیں، کامیابی کا پیمانہ اور کیا ہو؟، فیصل آباد کے صوبائی وزیر جو ماڈل ٹاﺅن واقعے کے الزامات کے بعد اپنی ہی جماعت کے ایک اور رہنماء کی طرف سے لگائے گئے الزامات بھی بھگت رہے ہیں، عدالت میں تو شاید یہ معاملات کبھی نہ جائیں مگر ایک دن پہلے پنجاب کے آئی جی پولیس نے اس صوبائی وزیر کو کلین چٹ دے دی، کوئی کرسکتا ہے ایسا؟، وزیراعظم تو کابینہ کو اس معاملے پر بولنے سے منع کررہے ہیں ہوںکہ مجرم نے صوبائی وزیر کیخلاف جو بیان دیا ہے، اس کو قانونی تحفظ حاصل ہے اور آئی جی پولیس پنجاب کی ہمت کی داد تو بنتی ہے، اگر الزام لگانے والا جھوٹا ہے تو کیا اس کیخلاف کارروائی نہیں بنتی اور اگر الزامات سچے ہیں تو کیا وزیر کو کٹہرے تک نہیں لانا چائیے؟۔
فیصل آباد کا ایک ایم این اے جس کا تعلق بھی حکمران جماعت سے ہے کہتا ہے کہ میرے بھائی کو 70 ووٹس سے دھاندلی کرکے ہروایا گیا، جس میں اس علاقے کا ایس ایچ او ملوث تھا، اگر یہ سچ ہے تو جو جماعت اپنی ہی جماعت کے بندے کو پولیس کی مدد سے ہروا سکتی ہے تو وہ اپنے حریفوں کیخلاف پولیس کو کیسے کیسے استعمال نہیں کرتی ہوگی؟، اور حکومتی جماعت کا ایم این اے اس وقت الزام لگائے جب 2 دن پہلے آئی جی پنجاب صوبائی وزیر کو کلین چٹ دے رہا ہو تو شکایت کی اہمیت نظر آتی ہے کیونکہ اگر پولیس کے ماضی کا ریکارڈ دیکھا جائے تو جہاں نابیناؤں پر ڈنڈے چلتے ہوں، جہاں ایم این اے تھانے میں گھس کر قیدی چھڑوا لاتا ہو، جہاں قصور میں خود پولیس شکایت کرنے والوں کی وڈیو بناکر ملزموں کو دیتی ہو، جہاں ایک اور ایم این اے تھانے سے بلا روک ٹوک بھاگ جاتا ہو، جہاں مظفر گڑھ میں پولیس والے خود مبینہ طور پر خاتون سے زیادتی میں ملوث ہوں اور جہاں اسی مظفر گڑھ میں پولیس والوں کو زیادتی کے ہی ایک کیس میں کوتاہی برتنے پر معطل کرکے کچھ عرصہ بعد دوسرے ضلع میں لگادیا جاتا ہو، تو بنا لمبے چوڑے قلابے ملائے یہ سب کے سامنے واضح ہے کہ پولیس والوں کو ان کے آقا کیسے کیسے استعمال کرسکتے ہیں؟۔
رہ گئے دھاندلی کی رٹ لگانے والے تو ان کو اب تک پتہ لگ جانا چاہیے کہ اکثریتی جماعت بہرحال کوئی اور ہے، ہاں اگر ان کے پاس دھاندلی کا ایک بھی ثبوت یا شکایت ہے تو اس کی تفتیش ضروری ہے کیونکہ چوری 100 روپے کی ہو یا ایک روپے کی، ہے تو چوری ہی۔