گلگت بلتستان کا ٹھنڈا موسم اور انتخابی گرما گرمی

گلگت بلتستان کےٹھنڈےموسم میں انتخابی گرماگرمی عروج پر ہے۔ہر طرف سیاسی جماعتوں کے جھنڈے لہرا رہے ہیں۔ جلسوں اور ریلیوں کی بہار ہے۔ سیاسی جماعتیں کامیابی کےلیےایڑی چوٹی کا زورلگارہی ہیں۔ انتخابی مہم آخری مراحل میں داخل ہوچکی ہے۔الیکشن میں صرف 3 دن باقی رہ گئے ہیں اورتینوں بڑی جماعتیں کامیابی کے دعوے کررہی ہیں۔
الیکشن سے پہلے ہی تازہ ترین سروےمیں عوامی رائے بھی سامنے آٓچکی ہے۔گیلپ پاکستان اور پلس کنسلٹنٹ سرویز کے مطابق تحریک انصاف کی پوزیشن پیپلزپارٹی اورنون لیگ سے زیادہ مضبوط ہے۔گلگت بلتستان میں وزیراعظم عمران خان کی مقبولیت بلاول بھٹو،مریم نوازاورنوازشریف سےزیادہ ہے۔گیلپ پاکستان کے سروے کے مطابق گلگت بلتستان کے27 فیصد ووٹرز نےتحریک انصاف کے حق میں رائے دی ہے۔جبکہ 24 فیصد نےپیپلزپارٹی اور14 فیصد نے نون لیگ کو اپنی پسند قرار دیاہے۔
اسی طرح پلس کنسلٹنٹ سروے کےمطابق اس وقت گلگت بلتستان میں تحریک انصاف کےووٹرزکا تناسب 35 فیصد،پیپلزپارٹی کے ووٹرزکاتناسب 26 فیصد اور نون لیگ کے ووٹرزکاتناسب 14 فیصدہے۔ اہم بات یہ ہے کہ گلگت بلتستان میں وزیراعظم عمران خان کی مقبولیت کسی بھی دوسرے رہنماء سے زیادہ ہے۔
گیلپ سروے کےمطابق وزیراعظم عمران خان گلگت بلتستان کے 42 فیصدووٹرزکے مقبول ترینرہنما ہیں۔بلاول بھٹوکی مقبولیت بہت کم 17 فیصدجبکہ نوازشریف کی مقبولیت ان سے بھی کم15 فیصد اورمریم نواز کی مقبولیت ان سے بھی بہت کم 3 فیصد ہے۔
پلس کنسلٹنٹ کےمطابق وزیراعظم عمران خان کی مقبولیت 41 فیصدبلاول بھٹو کی 23 فیصد نوازشریف کی16 فیصد اور مریم نواز کی مقبولیت 10 فیصدہے۔ پلس کنسٹلنٹ کے سروےمیں یہ بتایا گیا ہے کہ کس جماعت کو کتنی نشستیں ملنے کی توقع ہے اورکون سی جماعت کس حلقے سے کامیاب ہوسکتی ہے۔
سروے کےمطابق تحریک انصاف قانون ساز اسمبلی کی 24 میں سے12 نشستیں حاصل کرسکتی ہے۔پیپلزپارٹی کو5 اور مسلم لیگ نون کو صرف 1 نشست پر کامیابی مل سکتی ہے۔
ایک جانب عوامی سرویز کے نتائج ہیں تو دوسری جانب جوڑتوڑ کی سیاست بھی زوروں پر ہے۔اس جوڑتوڑ کا سب سے زیادہ نقصان مسلم لیگ نون کو بھگتنا پڑرہاہے جس کے نصف درجن سے زائد رہنماؤں نےنون لیگ کو خیر باد کہہ دیاہےجن میں نون لیگ کے اسپیکر گلگت بلتستان اسمبلی فدا محمد ناشاد، سابق وزیرِ قانون ڈاکٹر محمد اقبال،حاجی حیدر خان،سابق صوبائی وزیرابراہیم ثنائی سمیت کئی سیاسی رہنما پی ٹی آئی میں شامل ہوئے ہیں جس کے بعد پی ٹی آئی کی پوزیشن کافی مستحکم ہوگئی ہے۔
الیکٹیبلزکی شمولیت کے باوجودیہ الیکشن پی ٹی آٓئی کے لیے اتنا آسان نہیں لگ رہا جتنے دعوےکیے جارہے ہیں۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہےکہ الیکشن کے قریب نئے لوگوں کی شمولیت اوران کوٹکٹ دینے پر پارٹی میں ناراضی پائی جاتی ہےاورکئی حلقوں میں تحریک انصاف کے کئی پرانے رہنما آٓزاد حیثیت میں الیکشن لڑرہے ہیں جس کی وجہ سےپی ٹی آئی کے ووٹ بینک تقسیم ہونے کا امکان بڑھ گیاہے۔ایک جانب سیاسی جماعتیں انتخابی چالیں چل رہی ہیں تودوسری جانب انتخابی قوانین کی خلاف ورزیاں بھی جاری ہیں۔پی ٹی آئی کےوفاقی وزرا کھل کر جلسوں اور ریلیوں سے خطاب کررہے تھے۔الیکشن قوانین کے برخلاف گلگت بلتستان کے عوام کو ترقیاتی کاموں اور فنڈزکےلالچ دیے جارہےتھے۔اس حوالے سے مقامی سپریم کورٹ نے تمام پبلک آفس ہولڈرزکوانتخابی مہم نہ چلانے کے احکامات بھی جاری کیے ہیں۔گلگت بلتستان کی ایپلٹ سپریم کورٹ نے حکم جاری کرتے ہوئے کہاہے کہ تمام ارکان صوبائی اور قومی اسمبلی اوروفاقی وزرا کو فوری طور پر گلگت بلتستان چھوڑنے کا حکم دے دیاہے۔
گلگت بلتستان کی 24 نشستوں میں سے23 پر 15 نومبر کوانتخابات ہوں گےجس کے لیے326 امیدوار میدان میں ہیں جبکہ ایک حلقے میں پی ٹی آئی امیدوار کی وفات کے باعث وہاں انتخابات 22 نومبر کو ہوں گے۔گلگت بلتستان اسمبلی کی کُل 33 نشستیں ہیں جن میں سے 24 پر براہِ راست انتخابات ہوں گے جب کہ 6 نشستیں خواتین اور 3 ٹیکنوکریٹس کے لیے مخصوص ہیں۔
گلگت بلتستان کی مجموعی آبادی تقریباً 15 لاکھ ہے اور 10 اضلاع ہیں اورتقریباً 7 لاکھ افراد رائے دہی کے استعمال کرنے کے اہل ہیں۔