آئی جی سندھ کے اغوا کا معاملہ سپریم کورٹ پہنچ گیا

آئی جی سندھ کے مبینہ اغوا کا معاملہ سپریم کورٹ تک پہنچ گیا ہے۔ سول سوسائٹی نے ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں تحقيقاتی کمیشن بنانے کی استدعا کر دی۔
انسانی حقوق کے کارکنان آئی اے رحمان، جبران ناصر اور سلیمہ ہاشمی و دیگر نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کرتے ہوئے وزارت داخلہ، وزرات دفاع، پاکستان رینجرز اور آئی جی سندھ و دیگر کو فریق بنایا ہے۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ مسلم لیگ نواز کے رہنما محمد زبیر نے آئی جی سندھ پولیس مشتاق مہر کے اغوا کی تصدیق کی ہے جبکہ پاک فوج کے ترجمان نے آئی جی سندھ سے متعلق الزامات کی تردید نہیں کی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وفاقی اداروں نے سندھ کے معاملات میں غیرآئینی مداخلت کی۔
درخواست گزار میں کہا گیا ہے کہ وزرات دفاع، وزرات داخلہ اور رینجرز کو آئی جی کے دائرہ کار میں مداخلت کا اختیار نہیں ہے اور آئین کے مطابق رینجرز بھی سندھ میں رہتے ہوئے صوبائی حکومت کے ماتحت فرائض اجام دینے کے پابند ہیں۔
انسانی حقوق کے کارکنوں نے عدالت سے استدعا کی ہے کہ ایک ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیشن تشکیل دیا جائے جو اس بات کا تعین کرسکتے کہ آئی جی کو اغوا کرنے میں کون سے ادارے ملوث تھے اور اس کا حکم کس نے دیا۔ کمیشن اس میں ملوث ملزمان کے لیے سزا کا تعین بھی کرے اور دو ماہ کے اندر تحقیقات مکمل کرکے رپورٹ پیش کرے۔
درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ عدالت وزارت داخلہ اور دفاع کو آئی جی سندھ کے کام میں مداخلت سے روکے۔ رینجرز کو بھی حکم دیا جائے کہ وہ سندھ حکومت کے ماتحت فرائض انجام دے۔
یہ بھی پڑھیں:تحقیقاتی کمیٹی کوآئی جی کے اغوا کے شواہد مل گئے
واضح رہے کہ 19 اکتوبر کی صبح سویرے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کراچی کے ہوٹل میں کمرے کا دروازہ توڑ کر کیپٹن صفدر کو گرفتار کیا تھا۔ اس وقت مریم نواز بھی ان کے ہمراہ تھیں۔
مسلم لیگ نواز کے رہنما محمد زبیر نے اس وقت بیان دیا تھا کہ رینجرز نے رات کو سندھ پولیس کے سربراہ مشتاق مہر کو اغوا کرکے سیکٹر کمانڈر کے آفس میں ان سے زبردستی گرفتاری کے احکامات پر دستخط کروائے۔
اگلے روز پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے محمد زبیر کے بیان کی تصدیق کرتے ہوئے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل فیض حمید کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے ادارے سندھ میں کیسے کام کر رہے ہیں۔ یہ سندھ کے عوام کے لیے شرمندگی کا باعث ہے۔ بلاول بھٹو نے آرمی چیف سے واقعہ کی تحقیقات کا مطالبہ کیا جس پر جنرل قمر جاوید باجوہ نے کورکمانڈر کراچی کو واقعہ کی تحقیقات کا حکم دیا ہے۔
بلاول بھٹو کی پریس کانفرنس سے قبل سندھ پولیس کے سربراہ سمیت تمام افسران نے احتجاج کرتے ہوئے چھٹی کی درخواستیں دیں مگر بلاول کی درخواست اور آرمی چیف کی جانب سے تحقیقات کی یقین دہانی کے بعد درخواستیں واپس لیتے ہوئے کہا کہ انکوائری رپورٹ سامنے آنے تک وہ اپنی درخواستیں موخر کر رہے ہیں۔
پاکستان رینجرز، پاکستان آرمی اور آئی ایس آئی سمیت دیگر وفاقی اداروں نے آج تک واقعہ کی تصدیق یا تردید سے گریز کیا ہے۔
دوسری جانب کیپٹن صفدر کی متنازع گرفتاری کی تحقیقات کے لیے قائم سندھ حکومت کی وزارتی کمیٹی نے انکوائری شروع کردی۔ کمیٹی نے ہوٹل سے لےکر تھانے تک کی سی سی ٹی وی فوٹیج حاصل کرلی۔
سندھ حکومت نے واقعہ کی تحقیقات کیلئے وزرا پر مبنی ٹیم تشکیل دی ہے جس کی سربراہی سعید غنی کر رہے ہیں جبکہ مرتضیٰ وہاب اور ناصر حسین شاہ کمیٹی میں شامل ہیں۔ کمیٹی ایک ماہ کے اندر تحقیقات مکمل کرکے رپورٹ سندھ اسمبلی میں پیش کرے گی۔
وزرا کی کمیٹی نے منگل سے تحقیقات کا آغاز کرتے ہوئے ہوٹل سے لیکر تھانے تک جس روٹ سے کیپٹن صفدر کو لے جایا گیا، اس راستے پر لگے تمام کیمروں کی پل پل کی فوٹیجز حاصل کرلی ہیں۔
کمیٹی کو آئی جی سندھ مشتاق مہر کے مبینہ اغوا کے شواہد بھی مل گئے جس میں آئی جی کے گھر سمیت گزرگاہوں کی سی سی ٹی وی شامل ہے۔ ان فوٹیجز کا باریک بینی سے جائزہ لیا جارہاہے۔
اگلے مرحلے میں کمیٹی نجی ہوٹل کے کمرے کا دورہ کرے گی اور آئی جی سمیت ایڈیشنل آئی جی کو ایک دوروز میں طلب کیا جائے گا۔ صوبائی تحقیقاتی کمیٹی نے کیپٹن صفدر کو بھی طلب کرنے یا وڈیولنک کےذریعے بیان لینے کا فیصلہ کیاہے جبکہ مریم نواز کو ضرورت پڑنے پر بلایا جائے گا۔
انکوائری کمیٹی اب روزانہ اجلاس کرے گی اور 30 دن کے اندر رپورٹ مرتب کرکے وزیراعلیٰ سندھ کو پیش کرے گی جبکہ مراد علی شاہ نے اعلان کیا ہے کہ وہ تحقیقاتی رپورٹ سندھ اسمبلی میں پیش کریں گے۔