کیا واقعی حالیہ پاکستانی ڈرامے ہماری روایات کے برعکس ہیں؟

ہمیشہ سے پاکستانی ڈرامے نہ صرف پاکستان بلکہ بھارت میں بھی مشہور رہے ہیں جبکہ ماضی کے پاکستانی ڈرامے ایسے تھے جنہیں جتنی بار دیکھا جائے کم ہے 70 اور 80 کی دہائی میں نشر ہونے والے پاکستانی ڈرامے جن دھوپ کنارے ، خدا کی بستی ، تنہایاں سمیت دیگر ڈرامے گلی محلے کو ویران کردیتے تھے، چنانچہ پہلی بار ایسا دیکھنے میں آیا ہے کہ بڑی تعداد میں شائیقن نے پاکستانی ڈراموں پر ناصرف تنقید کی بلکہ اس پر پابندی لگانے کا مطالبہ بھی کیا ہے ۔
موجودہ دور کی بات کی جائے ڈراموں کی پکچرائزیشن میں جہاں جدت آئی وہیں ڈراموں کی اسکرپٹ میں بھی تبدیلی آئی۔ ماضی کے ڈراموں میں خاندانی رشتوں کی اہمیت اور خواتین کا مضبوط کردار اور مستحکم دکھایا جاتا تھا،لوگوں کو معاشرے کے حقیقی رنگ اور معاشی و سماجی مسائل کو روشناس کرایا جاتا تھا۔
تاہم حالیہ دنوں میں شروع ہونے والے ڈرامے جن میں دیوانگی ، جلن ، پیار کے صدقے ، محبت تجھے الوداع ، راز الفت اور عشقیہ اس کے برعکس نظر آتے ہیں۔
گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر پاکستانی ڈراموں پر تنقید کی گئی کہ یہ ڈرامے ہماری تہذیب کے خلاف ہیں اور ان پر پابندی لگائی جائے چند لوگوں نے تو یہاں تک کہا ہمارے ڈراموں میں طلاق اور ناجائز تعلقات کی ٹیوشن دی جارہی ہے جس کے بعد پیمرا کی جانب سے دو پاکستانی ڈرامہ عشقیہ اور پیار کے صدقے کو دوبارہ نشر کرنے پر پابندی لگادی۔
ڈرامہ سیریل 'پیار کے صدقے' کی کہانی ایک کم عمر بھولی بھالی لڑکی کے گرد گھومتی ہے جسے اس کا سسر ہراساں کرتا ہے جبکہ 'عشقیہ' ڈرامے میں مرکی کردار حمزہ اپنی محبوبہ حمنہ کی شادی کہیں اور طے ہونے پر انتقاماً اس کی بہن سے شادی کر لیتا ہے۔
بعدازاں پیمرا نے ایک اور ڈرامہ جلن جو اس وقت بھی نشر کیا جارہا ہے اس پر بھی پابندی لگادی لیکن اے آر وائی ڈیجیٹل کی جانب سے اس پابندی کو عدالت میں چیلنج کیا گیا تو عدالت نے پیمرا کے فیصلے کو معطل کردیا ۔
اس کے بعد چند لوگوں نے پیمرا کے فیصلے کی حمایت کی وہیں چند لوگ اس فیصلے سے نا خوش نطر آئے ۔
سوال یہ کہ کیا واقعی پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری ہماری تہزیب اور روایات کے خلاف ڈرامے بنا رہی ہے ؟
کیونکہ یہ وہی انڈسٹری ہے جس نے گزشتہ سالوں میں ، عہد وفا ، زندگی گلزار ہے، چیخ ، الف، ہمسفر، میری ذات ذرہ بے نشان جیسے ڈرامے بھی دیے ہیں جو آج بھی لوگوں کے ذہنوں میں نقش ہے۔