مہمندکان حادثہ:25 گھنٹےبعدمعجزانہ طورنوجوان زندہ نکال لیاگیا

جاں بحق افراد کی تعداد 22 تک پہنچ گئی

خیبر پختونخوا کے ضلع مہمند میں ماربل کان کے پہاڑ سے تودہ گرنے کے باعث جاں بحق افراد کی تعداد 22 تک پہنچ گئی ہے۔ ملبے سے 25 گھنٹے بعد ایک نوجوان کو زندہ نکال لیا گیا ہے۔

نمائندہ سما کے مطابق مہمند میں ماربل کان حادثے کے 25 گھنٹے بعد ایک نوجوان کو معجزانہ طور پر زندہ نکال لیا گیا ہے۔ نوجوان 2 بڑے پتھروں کے درمیان پھنسا ہوا تھا۔ نوجوان کو ابتدائی طبی امداد کیلئے مقامی اسپتال منتقل کیا گیا، جہاں سے اسے گھر منتقل کردیا گیا ہے۔

ریسکیو حکام کے مطابق گزشتہ روز 2 افراد کے زندہ ملبے تلے دبے ہونے کی اطلاعات موصول ہوئی۔ جو اپنے موبائل فونز سے مسلسل رابطے میں تھے، تاہم اب ان کے موبائل فونز بند آرہے ہیں۔ دیگر 12 لاپتا افراد کے اہل خانہ بھی متاثرہ کان کے باہر موجود ہیں اور اپنے پیاروں کے زندہ بچ جانے کی امید پر ہیں۔

مقامی رضا کاروں کے مطابق اب بھی ملبے کے نيچے کئی لوگ دبے ہيں۔ ملبہ ہٹانے ميں 10 دن لگيں گے۔ ریسکیو حکام نے مزید بتایا کہ بھاری مشنری آئی تو ہی ملبہ ہٹ سکتا ہے۔ واضح رہے کہ ماربل کان کے ہولناک حادثے میں جاں بحق افراد کی تعداد 22 تک پہنچ گئی ہے۔

نمائندہ سما کا کہنا تھا کہ یہاں ایسے گھرانے بھی ہیں، جہاں سے 4،4 جنازے اٹھے اور ایسے بھی گھر ہیں، جہاں واحد کمانے والا بھی کن حادثے کی نذر ہوا۔

دوسری جانب وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان نے مہمند حادثہ متاثرین کے لیے امدادی پیکج میں اضافے کا اعلان کردیا۔ وزیراعلی کا کہنا ہے کہ جاں بحق افراد کے لواحقین کے لیے امدادی پیکج 5 لاکھ سے بڑھا کر 9 لاکھ کر دیا گیا ہے، جب کہ زخمیوں کو ایک لاکھ روپے فی کس امداد اور مفت علاج کرایا جائے گا۔

وزیراعلیٰ کا مزید کہنا تھا کہ آزمائش کی اس گھڑی میں متاثرین کو تنہا نہیں چھوڑیں گے۔ دلخراش واقعہ پر پوری قوم افسردہ ہے۔ زخمیوں کو مفت طبی سہولیات دی جا رہی ہیں۔ ریسکیو آپریشن میں مقامی کمیونٹی کے تعاون پر مشکور ہیں۔

واقعہ پیر 7 ستمبر کو ضلع مہمند کی تحصیل صافی میں پیش آیا، جہاں زیارت ماربل مائنز کے قریب پہاڑی تودہ اچانک گر پڑا۔ جس کے بعد مزدور، گاڑیاں اور مشینری ڈرائیوروں سمیت تودے میں دب گئے۔

ڈی جی پی ڈی ايم اے پرویز خان کہتے ہیں کہ ايک نہيں 6 سے 8 پوائنٹ ہيں جس پر ريسکيو کا کام بھرپور طريقے سے جاری ہے۔ کام کرنے ميں تھوڑی سی مشکلات کا سامنا ہے کیونکہ پہاڑ ہموار نہيں اور اس وجہ سے مشينری کو آزادانہ حرکت نہيں دے سکتے۔

ڈی جی کا کہنا تھا کہ جو لوگ کام کر رہے تھے ان کی لوکيشن اور تعداد کا کوئی ڈيٹا نہیں اس لیے لاپتا افراد کی تعداد کے بارے ميں کچھ بھی کہنا مشکل ہے۔

واضح رہے کہ خيبر پختونخوا میں آج تک کان میں کام کرنے والے مزدوروں کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے کوئی قانون سازی نہ ہوسکی۔ ان مائنز میں حفاظتی تدابیر نہ ہونے کے برابر ہیں اور کان کن جان ہتھیلی پر رکھ کرکام کررہے ہیں جس کے باعث درہ آدم خیل کے کوئلہ کان سمیت بونیر اور دیگر علاقوں میں ماربل کی کٹائی کے دوران اکثر تودے گرتے رہتے ہیں۔

Tabool ads will show in this div