ایف بی آر نےسریناعیسیٰ کی آمدن اور اثاثوں کی وضاحت تسلیم نہیں کی
ایف بی آر نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کی آمدن اور اثاثوں کی وضاحت تسلیم نہیں کی ہے۔ سماء ڈیجیٹل کے پاس موجود مسز سرینا عیسیٰ کے ایف بی آر کو چوتھے جواب کی ایکسکلوزو کاپی اور اہلیہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے میڈیا کو جاری کیا گیا بیان اہم موڑ کی نشاندہی کرتا ہے۔ مسز سرینا عیسیٰ کے جمع کروائے گئے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ ایف بی آر نے پہلے اُنکی جمع کروائی گئی آمدن کو تسلیم کرنے سے انکار کیا اور بعد ازاں جب مسز سرینا عیسیٰ نے آمدن کے ذرائع مزید وضاحت کے ساتھ جمع کروائے تو ایف بی آر نے آمدن اور اثاثوں کی قیمت میں فرق کی نشاندہی کردی۔
جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ نے میڈیا کو جاری کیے گئے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ابتدا میں عمران خان حکومت کے اہلکاروں بشمول ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کی طرف سے پروپیگنڈہ مہم سے شروع ہونے والے معاملہ کو ٹیکس دہندگان کے پیسوں سے تنخواہ لینے والے سرکاری ملازمین نے تحریکِ انصاف اور ایم کیوایم کی اتحادی حکومت کے سیاسی ایجنڈا کو آگے بڑھانے کی ذمہٰ داری اُٹھا لی ہے۔
مسز سرینا عیسیٰ اپنے بیان میں مزید کہتی ہیں کہ پی ٹی آئی کے ایک کارکن شہزاد اکبر جو ایک این جی او ایسٹ ریکوری یونٹ کے چئیرمین ہیں،ان کے پاس غیر معمولی اور ناقابلِ سوال اختیارات ہیں اور ان کوسُپریم کورٹ کے جج کو ہٹانے کا کام دیا گیا ہے جِس کے لیے اِنھوں نےاپنے دستِ راست کے لیے ایف بی آر کے مُلازم مُحّمد اشفاق احمد کو اپنی ذاتی این جی او ایسٹ ریکوری یونٹ کا رُکن بنا لیا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہتی ہیں کہ قانون سرکاری ملازمین پر ایسی کسی بھی تنظیم کا حصہ بننے پر پابندی لگاتا ہے جِس کا سربراہ کسی سیاسی جماعت کا کارکن ہو لیکن شاید اِس معاملہ میں قانون کی حیثیت بہت چھوٹی ہے۔ مسز سرینا عیسیٰ کہتی ہیں کہ مرزا شہزاد اکبر مُنتخب ہوکر نہیں آئے اور اُنکو احتساب کی ذمہٰ داری دے دی گئی ہے لیکن وہ خود کو ناقابلِ احتساب سمجھتے ہیں۔ مسز سرینا عیسیٰ کہتی ہیں کہ مرزا شہزاد اکبر نے اپنے اور اپنے اہلخانہ کے رہن سہن کو چُھپایا ہے اور اپنے اور اپنی بیگم کے ٹیکس ریٹرن ظاہر کرنے سے انکار کردیا جبکہ وہ میرے اور میرے خاندان کے اثاثوں کی کھوج میں کوئی تامل نہیں دکھاتے۔
مسز سرینا عیسیٰ مُحّمد اشفاق احمد پر الزام لگاتی ہیں کہ اُنہیں پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم حکومت کی خدمات کے بدلے میں نوازتے ہوئے ایف بی آر میں بیک وقت ممبر آئی آر آپریشنز اور ڈی جی انٹرنیشنل ٹیکس کے دو عہدوں سے نوازا گیا ہے جبکہ غیر اعلانیہ طور پر وہی ایف بی آر کے سربراہ بھی ہیں۔ مسز سرینا عیسیٰ کا کہنا ہے کہ ایف بی آر کے ملازم ہونے کے وجہ سے مُحّمد اشفاق احمد کو اِنکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کا زیادہ پابند ہونا چاہئیے تھا لیکن انہوں نے میرے ٹیکس گوشواروں کی خُفیہ معلومات کو غیرقانونی طور پر تحریکِ انصاف کے مرزا شہزاد اکبر اور ایم کیو ایم کے فروغ نسیم کو دے دیا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ مزید کہتی ہیں کہ مُحّمد اشفاق احمد یا اُنکے کہنے پر میڈیا کو مخصوص معلومات لیک کی جارہی ہیں جِس کی مثال دینے کے لیے مسز سرینا عیسیٰ نے ایک صحافی کے پروگرام کا حوالہ دیا کہ اُس صحافی نے اپنے یوٹیوب پروگرام میں بار بار ایف بی آر ذرائع کا حوالہ دے کر میری ایف بی آر میں پیشی پر معلومات دیں۔ مسز سرینا عیسی نے اِس خدشے کا اظہار بھی کیا کہ اُنکے آج کے جواب میں سے بھی آدھا سچ میڈیا کو بتا دیا جائے گا۔ جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ کا کہنا ہے کہ حکومت کا دعویٰ کہ میڈیا آذاد ہے تو میں دیکھتی ہوں کہ وہ میرا یہ بیان چھپنے دیتی ہے یا دُبا دیتی ہے۔ مسز سرینا عیسیٰ کا اِس موقع پر کہنا تھا کہ پاکستان کے دور افتادہ علاقوں نہیں بلکہ اسلام آباد سے دِن دیہاڑے صحافیوں کو اغوا کیا جارہا اور مارا پیٹا جارہا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ سوال اُٹھاتے ہیں کہ میں سمجھتی تھی اغوا کاروں کو پکڑنے کے لیے اُنکی تصاویر نشر کی جائیں گی اور معلومات دینے والوں کے لیے انعام کا اعلان کیا جائے گا مگر ایسا کُچھ نہیں ہوا، آخر ایسا کیوں؟
اپنے میڈیا کو جاری کردہ بیان کے آخر میں جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ مایوسی کا اظہار کرتی ہیں کہ اُنکی خُفیہ اور قانونی تحفظ کی حامل معلومات اور بینک اکاؤنٹ کی تفصیلات کو میرے جواب میں موجود شخصیات کودیا گیا۔ مسز سرینا عیسیٰ کا کہنا تھا کہ وہ نہ تو سرکاری ملازم ہیں اور نہ ہی عوامی دفتر رکھتی ہیں بلکہ ایک عام نوکری پیشہ شہری ہیں جنہوں نے پچھلے دو سال میں بالترتیب 8 لاکھ 9 ہزار 970 روپے اور 5 لاکھ 76 ہزار 540 روپے ٹیکس ادا کیا۔ مسز سرینا عیسیٰ کا کہنا تھا کہ انہوں نے بھی کُچھ ایسی شخصیات کی معلومات ٹیکس حُکام سے مانگی تھی جِن کو اُن کی خُفیہ معلومات تک رسائی دی گئی یا مُہیا کی گئیں خصوصاً وزیراعظم عمران خان، وفاقی وزیرِ قانون بیرسٹر فروغ نسیم، ایسٹ ریکوری یونٹ کے سربراہ مرزا شہزاد اکبر، سابق اٹارنی جنرل کیپٹن (ر) انور منصورخان، ایف بی آر کے ملازم مُحّمد اشفاق احمد اور عبدالوحید ڈوگر کی جِس پر اِن شخصیات کو اعتراض نہیں کرنا چاہئے کیونکہ یہ عوامی دفتر رکھتے ہیں جبکہ ایک سرکاری ملازم ہے اور دوسرا وہ شکایت کُنندہ جِس نے شکایت درج کروائی کہ میں اور میرے اہلخانہ ٹیکس ادا نہیں کرتے۔
مسز سرینا عیسٰی کی طرف سے میڈیا کے لیے تحریر کردہ ایک صفحے کے بیان کے ساتھ ذرائع نے 28 اگست 2020 کو ٹیکس کمشنر آئی آر ذوالفقار احمد کو جمع کروائے گئے 20 صفحات کے بیان تک بھی راقم صحافی کو خصوصی رسائی دی۔ ایف بی آر کو جمع کروائے گئے بیان میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ حوالہ دیتی ہیں کہ وہ یہ بیان 21 اگست 2020 کو سیکشن 111 اور سیکشن 122 کے تحت جاری کردہ دو نوٹسز کے جواب میں جمع کروا رہی ہیں۔ مسز سرینا عیسیٰ کے ایف بی آر کو جمع کروائے جواب میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے بیٹے ارسلان عیسیٰ کھوسو کے وکیل راشد ابراہیم کے 15 جولائی کو ایف بی آر حُکام کو لکھے گئے خط کی کاپی بھی لگائی گئی جِس میں راشد ابراہیم ایف بی آر حُکام پر الزام لگاتے ہیں کہ اپنے کلائنٹ کی نمائندگی کے دوران اُنکا ایف بی آر حُکام سے جو تبادلہ ہوا ہے اُس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایف بی آر حُکام پہلے سے فیصلہ طے کرکے بیٹھے ہیں ایسے میں وہ اپنے کلائنٹ کی نمائندگی سے معذرت کرتے ہیں۔
اِسی طرح جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ ایف بی آر کے نوٹسز اور اپنے جوابات کی ٹائم لائن کا حوالہ دے کر بتاتی ہیں کہ 25 جون 2020 کو نوٹس میں آپ نے مُجھ سے لندن میں جائیدادوں کی منی ٹریل مانگی حالانکہ منی ٹریل جیسی کسی اصطلاح کا اِنکم ٹیکس آرڈیننس میں کوئی ذکر نہیں لیکن پھر بھی میں نے 9 جولائی 2020 کو اپنے کراچی میں اسٹینڈرڈ چارٹرڈ بینک کے اکاونٹ کی تفصیلات جمع کروا دی جِس سے رقوم برطانیہ بھجوائی گئیں۔ مسز سرینا عیسیٰ کی اہلیہ کے ایف بی آر کو جواب میں پھر بتایا جاتا ہے کہ ایف بی آر نے پھر 14 جولائی 2020 کو اُنکو دوسرا نوٹس جاری کرکے لندن میں سرمایہ کاری کے ذرائع پوچھے جو مسز سرینا عیسیٰ نے 21 جولائی 2020 کو ایک تحریری جواب میں پیش کردئیے۔
اگلے نکتے میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ انکشاف کرتی ہیں کہ 30 جولائی 2020 کے تیسرے نوٹس میں ایف بی آر حُکام نے نیا الزام لگا دیا کہ میری قابلِ ٹیکس آمدن لندن میں جائیداد خریداری کے لئے کافی نہیں تھی جِس کے جواب میں مسز سرینا عیسیٰ کا کہنا تھا کہ انہوں نے 10 اگست 2020 کو اپنی زرعی آمدن پیش کردی جو پاکستان میں قابلِ ٹیکس نہیں ہے۔
مسز سرینا عیسیٰ اِس موقع پر ایک اور بڑا دھماکہ کرتی ہیں کہ 21 اگست 2020 کے نوٹس میں ایف بی آر حُکام اُنکے تمام ذرائع آمدن بشمول زرعی آمدن، کلفٹن کی دو جائیدادوں سے حاصل ہونے والا کرایہ اور بعد میں اُنکی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم کو شُمار کیے بغیر قرار دیتے ہیں کہ میں نے لندن کی جائیدادیں نامعلوم ذرائع سے خریدی ہیں۔ بہرحال آپ (ایف بی آر) بالآخر تسلیم کرتے ہیں کہ میں ایک نوکری پیشہ خاتون ہوں جِس کی قابلِ ٹیکس تنخواہ 93 لاکھ 75 ہزار 931 روپے تھی جبکہ آپ نے خود سے طے کردیا کہ لندن جائیدادوں کی قیمت 10 کروڑ 46 لاکھ 80 ہزار 20 روپے ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ حیرت کا اظہار کرتی ہیں کہ معلوم نہیں آپ نے میری قابلِ ٹیکس آمدن 93 لاکھ طے کی اور میں درخواست کرتی ہوں کہ مُجھے بتایا جائے جائیدادوں کی قیمت 10 کروڑ کیسے قرار دی گئی۔ مسز سرینا عیسیٰ کی اہلیہ ایف بی آر حُکام کو یاددہانی کرواتی ہیں کہ میری بار بار درخواست کے باوجود آپ مُجھے میرے ہی ٹیکس گوشواروں کی دستاویزات کی کاپی نہیں دے رہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ اِس موقع پر ایف بی آر حُکام کو بے بسی سے کہتی ہیں کہ آپ مُجھ سے 38 سال قبل کراچی امریکن اسکول میں شروع کی گئی نوکری کے دِن سے لے کر آج تک کے ایک ایک روپے کا حساب تو مانگ رہے ہیں لیکن میرے ٹیکس گوشواروں کی کاپی نہیں دے رہے جِس پر آپ انحصار کررہے ہیں۔ جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ نے ایف بی آر حُکام کو باور کروایا کہ ٹیکس آرڈیننس کی شِق 174/3 کے تحت کوئی بھی شہری چھ سال سے پُرانا ٹیکس ریکارڈ رکھنے کا پابند نہیں ہے لیکن ٹیکس حُکام اتنی زحمت نہیں کررہے کہ وہ قانون کی اِن حدود سے اگر تجاوز کررہے ہیں تو کم از کم اُنہیں (مسز سرینا عیسیٰ) کو چھ سال سے پرانے ٹیکس ریکارڈ کی کاپی ہی دے دیں لیکن وہ یہی خُفیہ پُرانا ریکارڈ بغیر کسی جِجھک کے پی ٹی آئی کے شہزاد اکبر، ایم کیو ایم کے فروغ نسیم اور عبدالوحید ڈوگر کو سیاسی مقاصد کے لیے دے دیتے ہیں جِس کو وہ میرے خاوند کو اُنکے آئینی سُپریم کورٹ کے جج کے عہدہ سے ہٹانے کے لیے عمران خان حکومت کے ایجنڈا میں استعمال کررہے ہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ ایف بی آر حُکام پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے اور جانبداری کا الزام لگاتے ہوئے اُن سے قانون کی دھجیاں بکھیرنے کی وضاحت بھی مانگتی ہیں۔