ڈرامہ ارطغرل سے متعلق دارالافتاء بنوری ٹاؤن کا فتویٰ

دارالافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن کراچی نے ترک ڈراما سیریل ارطغرل غازی سمیت دیگر ڈراموں کو دیکھنا شرعاً ناجائز قرار دیا ہے۔
بنوری ٹاؤن کی آفیشل ویب سائٹ پر ڈراما ارطغرل غازی دیکھنے سے متعلق ایک سے زائد فتوے جاری کیے گئے ہیں۔ اس سلسلے میں سماء ڈیجیٹل نے بنوری ٹاؤن سے بذریعہ فون اور ای میل رابطہ کیا اور وہاں سے آفیشل ویب سائٹ پر اپ لوڈ کئے گئے ان فتووں کی تصدیق کی گئی۔
ارطغرل ڈراما دیکھنے سے متعلق دارالافتاء کے جاری کردہ ایک فتوے مطابق ’’مذکورہ ڈراما ہو یا کوئی اور ڈراما یا فلم، دیکھنا شرعاً جائز نہیں‘‘۔
ڈرامے سے متعلق ایک دوسرے فتوے میں واضح کیا گیا ہے کہ ’’شریعت میں کسی کام کے جائز ہونے کے لیے دو باتیں ضروری ہیں: اس کام کا مقصد درست ہو یعنی شریعت کے خلاف نہ ہو اور اس مقصد کے لیے جو ذریعہ استعمال کیا جائے وہ بھی درست ہو یعنی شرعاً جائز ہو‘‘۔
کیا ڈرامہ ارطغرل غازی سمیت دیگر ڈرامے دیکھنا جائز ہے؟
فتوے میں یہ بات بھی واضح کی گئی ہے کہ چاہے ڈرامے کا مقصد نیک ہو لیکن ڈراما سازی جو کہ مقصد کا ذریعہ ہے وہ اگر ناجائز و حرام ہے تو ڈراما ارطغرل ہو یا کوئی بھی ڈراما اسے دیکھنا اور اسکی تشہیر ناجائز ہے۔
ارطغرل سے متعلق ایک تیسرے فتوے میں واضح کیا گیا ہے کہ ’’کسی بھی جائز مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ناجائز طریقہ اپنانا درست نہیں‘‘۔
فتوے میں لکھا گیا ہے کہ ’’خلافت عثمانیہ کے تاریخی دور کی روئیداد تاریخی کتابوں کے مطالعہ اور اس سے متعلق لٹریچر عام کرکے ہوسکتی ہے‘‘۔
ڈرامہ ارطغرل غازی پاکستان میں انتہائی مقبول ہے اور نوجوان نسل کی ایک بڑی تعداد ڈرامے کو دیکھنے میں دلچسپی رکھتی ہے تاہم مذہبی حلقوں کی جانب سے ڈراما دیکھنے سے متعلق مختلف آراء پائی جاتی ہے۔
جامعہ دارالعلوم کراچی
ایک ماہ قبل سماء ڈیجیٹل نے ڈرامہ ارطغرل غازی سے متعلق جب جامعہ دارالعلوم کراچی سے رابطہ کیا تو وہاں سے ڈراموں کے حوالے سے پہلے کا ایک عمومی تبصرہ بھجوادیا گیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ ’’اسلام اور اسلامی شخصیات کو یا ان کے کارناموں کو ڈراموں یا ویڈیو فلموں کے ذریعہ پیش کرنا خود ان ہستیوں کی شان مجروح کرنے کے مترادف ہے کیونکہ ڈراموں میں غلط بیانی اور غلط انتساب تقریباً لازمی ہے، لہٰذا اس کو اسلامی ڈرامہ کہنا یا اس طرح ڈراموں کی شکل میں بلند پایہ شخصیات کا کردار پیش کرکے اسے اسلام کی خدمت سمجھنا درست نہیں‘‘۔
علاوہ ازیں اس رائے میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ ’’ڈراموں میں اپنی طرف سے حلیہ، لباس اور گفتگو کو منسوب کیا جاتا ہے جو درحقیقت اسلام کی خدمت نہیں بلکہ اسلام کےخلاف سازش کا ایک حصہ ہے، لہٰذا اس طرح کی فلمیں بنانا، دیکھنا اور دکھانا گناہ ہے اور مسلمانوں کو اِن سےمکمل پرہیز کرنا لازم ہے‘‘۔
اس ضمن میں سماء ڈیجیٹل کی جانب سے سہواً ارتغرل ڈرامے کا لفظ بھی شامل ہوگیا تھا جبکہ کراچی دارالعلوم کی وہ آراء عمومی ڈراموں کے حوالے سے تھیں اور اس میں ارطغرل ڈرامے کا کوئی تذکرہ نہیں تھا۔ تاہم اس کے فوراً بعد سماء ڈیجیٹل نے اپنی خبر کی تصحیح کردی تھی۔ علاوہ ازیں اسی دوران معروف مذہبی اسکالر مفتی محمد زبیر نے بھی اپنے ایک ٹی وی انٹرویو میں واضح کردیا تھا کہ جامعہ دارالعلوم کراچی نے ڈرامہ ارطغرل غازی کے حوالے سے کوئی فتویٰ جاری نہيں کيا۔
واضح رہے کہ وزیراعظم عمران خان ڈرامہ ارطغرل سے متعلق کہہ چکے ہیں کہ ایسے ڈرامے اسلام کے مختلف پہلو دکھانے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔