سونے کا نوالہ ہے، شیر کی نظر کہاں
تحریر: محمد لقمان
جب حلال و حرام کی تمیز نہ ہو، روپیہ پیسا بے حساب ہو، اور ماں باپ کی اپنی ہی زندگی ہو، تو بگڑے رئیس زادے ہی پیدا ہوتے ہیں۔ جن کی زندگی میں نہ بڑوں کے لئے تمیز ہوتی ہے اور نہ ہی کسی کی زندگی کی اہمیت۔ یہ انوکھے لاڈلے اور سر پھرے امیر زادے کچھ بھی کر گذریں، قانون کے شکنجے سے ہر دفعہ نکلنے کا موقع مل ہی جاتا ہے۔
لاہور کے علاقے جوہر ٹاون میں 16 سال کے طلحہ نے اثر و رسوخ کے مالک پولیس افسر باپ کے بل بوتے پر 25 سال کے شخص کو اپنی تیز رفتار کار کے نیچے کچلا تو قانون بھی اس کے لئے موم کی ناک بن گیا۔ قبل از گرفتاری ضمانت ہوگئی اور ایک اور شخص اپنے آپ کو واقعے کا ذمہ دار بننے کے لئے تیار بھی ہوگیا۔ امیر زادوں کے ہاتھوں کسی عام آدمی کا قتل پاکستان کی تاریخ میں پہلا واقعہ نہیں۔ ماضی میں بھی باپ کی دولت اور اثر و رسوخ کے نشے میں دھت امیر زادے قانون کی دھجیاں اڑاتے آئے ہیں۔ لاہور میں ہی 2012 میں سابق کمشنر خسرو پرویز کے بیٹے شان محمد نے اپنے دوست حمزہ الہی کو مذاق مذاق میں قتل کر ڈالا اور ابھی تک سزا سے بچا ہوا ہے۔ سندھ کے ایک وڈیرے کے بیٹے شاہ رخ جتوئی نے کراچی میں متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے نوجوان شاہ زیب کو قتل کر ڈالا اور دباو اور روپے پیسے کی وجہ سے ورثاء سے صلح کرنے میں کامیاب ہوگیا۔۔
یکم اپریل کو سابق وزیر خارجہ صدیق کانجو کے بیٹے مصطفی کانجو نے ایک بیوہ کے بیٹے زین کو قتل کیا۔ مگر خاندانی اثر و رسوخ کی وجہ سے اپنی رہائی کے بہت قریب پہنچ گیا ہے۔ آخر ایسا کیا ہے کہ امراء کے بچے مسائل کے حل کا حصہ بننے کی بجائے معاشرتی گنجلکوں کی وجہ ہی کیوں بنتے ہیں۔ اس کی عمومی وجہ ماں باپ کی طرف سے بچوں کے لئے حد سے زیادہ پیار اور محبت کے علاوہ ہر ضد کو پورا کرنا ہے۔
اگر والدین بچوں کو دن میں ایک مرتبہ ہی نہیں کہہ دیں تو بچوں کو اپنی قیود و حدود کا احساس ضرور ہوجاتا ہے۔ جس سے وہ بہت ساری غلط حرکتیں کرنے سے رک جاتے ہیں۔ اگر بچے کو احساس ہوجائے تو مارکٹائی کرنے یا تیز گاڑی چلانے پر پکڑا گیا تو والدین بے جا حمایت نہیں کریں گے تو وہ ایسے جرائم کرنے سے باز رہے گا۔ دوسری صورت میں جب بچے کو احساس ہوجائے کہ وہ کوئی بھی جرم کرے گا تو اس کا باپ اور خاندان اس کے لئے ڈھال بن جائے گا تو وہ غلط کاموں کو اپنی زندگی کا اوڑھنا بچھونا بنا لیتا ہے۔
ان برائیوں کو روکنے میں اہم کردار والدین ادا کرسکتے ہیں۔ وہ بچوں کو کھلائیں تو سونے کا نوالہ۔ مگر دیکھیں شیر کی نظر سے۔ بالفاظ دیگر، بچوں کی خواہشات پوری کرنا والدین کی ذمہ داری ہے۔ مگر اس کے ساتھ ان کی حرکات پر نظر رکھنا بھی ان پر لازم ہے۔ اسی طرح ریاست کا بھی فرض ہے کہ قانون کا شکنجہ سب کے لئے ہو، اور سب کو انصاف ہوتا نظر بھی آئے۔ ایسا ہونا پاکستان میں بظاہر مشکل نظر آتا ہے، لیکن مغربی ترقی یافتہ دنیا جرائم کے خاتمے کے لئے ایسے نظام کو کئی صدیوں سے اپنائے ہوئے ہے۔
یہی وجہ ہے کہ وہاں سربراہ مملکت یا حکومت بھی جرم کرے تو اس کا ٹھکانہ جیل ہی ہوتی ہے۔ مملکت خداداد میں بھی یہ خواب پورا ہوسکتا ہے، اس کے لئے صرف آزمائش شرط ہے۔