کالمز / بلاگ

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس کا تفصیلی فیصلہ ستمبرمیں مُتوقع

جج کا اختلافی نوٹ اہم قرار دیا جا رہا
فائل فوٹو
فائل فوٹو
Justice Qazi Faez Isa فائل فوٹو

قائرین کی دلچسپی کے لیے بتاتا چلوں کہ سُپریم کورٹ میں ججز کیسے فیصلہ لکھتے ہیں اور بینچ کی تشکیل کیسے ہوتی ہے۔ سُپریم کورٹ کا بینچ کم از کم دو ججز پر مُشتمل ہوتا ہے ورنہ عموماً تین رُکنی بینچ بنایا جاتا ہے تاکہ اگر دو ججز مُختلف نتیجہ پر بھی پہنچیں تو تیسرا جج کسی ایک جج کے پلڑے میں وزن ڈال دے اور دو ایک کی اکثریت سے حتمی فیصلہ بن جائے۔ اِسی لیے بعض قانونی اصطلاحوں میں تیسرے جج کو ریفری جج کہہ کر بھی پُکارا گیا۔ پانچ یا پانچ سے زیادہ ججز پر مُشتمل جج بینچ لارجر بینچ کہلاتا ہے اور اگر کوئی بہت ہی اہم آئینی مسئلہ درپیش ہو تو چیف جسٹس کے پاس سُپریم کورٹ کے تمام ججز پر مُشتمل بینچ بنانے کا اختیار بھی ہوتا ہے جو فُل کورٹ کہلاتا ہے۔ یہ تو ہوگئی بینچ کی تشکیل۔

اب آتے ہیں ججز فیصلہ کیسے لکھتے ہیں اور فیصلہ لکھنے کے لیے ذہن کیسے بناتے ہیں۔۔۔ جب کیس کی سماعت ہوتی ہے تو دونوں فریقین یعنی درخواستگزار اور جوابدہ دونوں کے وُکلا دراصل ججز کی معاونت کررہے ہوتے ہیں کہ اُنکا کلائنٹ کیسے درست ہے۔ وہ اپنے اپنے کلائنٹ کے حق میں مُختلف آئینی اور قانونی نکات کے علاوہ پاکستانی عدالتِ عُظمیٰ اور بین الاقوامی عدالتوں کے فیصلوں سے مثالیں بھی پیش کرتے ہیں۔ ججز وُکلا کے دلائل کے دوران اُن سے ہر پہلو سے سوال پوچھتے ہیں اور وُکلا اُن سوالوں کا جواب آئینِ پاکستان اور پہلے سے دئیے گئے فیصلوں میں موجود نظیروں سے دیتے ہیں۔ اگر کوئی بڑا مُقدمہ ہو اور اُس کا فیصلہ ایک سماعت پر نہ ہونا ہو تو عموماً وُکلا ججز کے کئی سوال نوٹ بھی کر لیتے ہیں کہ ہمارے پاس معزز جج صاحب کے اِس سوال کا جواب فوری نہیں ہے اور ہم اگلی سماعت پر جواب دیں گے۔ پھر وُکلا اپنے چیمبر میں موجود جونئیر وُکلا یا لا ایسوسی ایٹس سے ریسرچ کروا کر اگلی سماعت پر کوئی ایسا پُرانا عدالتی فیصلہ یا آئینی نُکتہ نکال کر لاتے ہیں جِس سے وہ کوشش کرتے ہیں معزز جج اُنکے کلائنٹ کے حق میں مُطمعن ہو جائے اور اِس تمام عمل کے دوران ججز بھی دلائل کے نکات کے نوٹس بھی لے رہے ہوتے ہیں اور سماعت کے اختتام پر عموماً دونوں فریقین کے وُکلا کو حُکم دیتے ہیں کہ آپ ہمیں اپنے دلائل کی تحریری کاپی بھی جمع کروا دیں تاکہ ہمیں فیصلہ دینے کے لیے اُنکو پڑھ کر کسی بھی نتیجہ تک پہنچنے میں آسانی رہے۔ تو کیا ججز صرف اُن تحریری دلائل پر فیصلہ دینے کے لیے انحصار کرتے ہیں؟ جی نہیں۔۔ تو پھر ججز فیصلہ کیسے کرتے ہیں؟ اِس کے لیے آپ کو ججز اور اُنکے عملہ پر نظر ڈالنی ہوگی۔ چیف جسٹس کے پاس دس رکنی جبکہ باقی تمام ججز کے پاس چار چار ارکان کا عملہ ہوتا ہے۔ اِس عملہ میں جج کا سیکریٹری اور پرسنل سیکریٹری شامل ہوتا ہے لیکن ہر جج کے ساتھ دو سال کے لیے کنٹریکٹ پر ایک لا کلرک تعینات ہوتا ہے جو اِن فیصلوں سے متعلق ریسرچ میں معاون کا کردار ادا کرتا ہے۔ ججز کیس کی سماعت کے بعد روزانہ کی بُنیاد پر اپنے لا کلرک کو نکات اور سوالات نوٹ کروا رہے ہوتے ہیں جبکہ کیس کی سماعت مُکمل ہونے کے بعد مُختصر فیصلہ دینے کے بعد اِن لا کلرکس کا کام تفصیلی فیصلہ کے لیے ریسرچ کرنا ہوتا ہے۔ تفصیلی فیصلہ میں ججز وضاحت کرتے ہیں کہ انہوں نے کِس بُنیاد پر دائر درخواست کو مُسترد کیا یا درخواست کو قبول کیا۔ سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اپنے دور میں سُپریم کورٹ میں ایک ریسرچ سیل بھی قائم کیا جِس میں پاکستان بھر کی ڈسٹرکٹ کورٹس سے بارہ مُنتخب ججز کو ڈیپوٹیشن پر لاکر تعینات کیا گیا ہے جو بین الاقوامی اور پاکستانی عدالتوں کے فیصلوں پر تحقیق کے امور سر انجام دے رہے ہیں۔ سُپریم کورٹ کے ججز اپنے لا کلرک کے علاوہ تحریری فیصلہ کے لیے اب اِس بارہ رُکنی ریسرچ سیل سے بھی بھرپور فائدہ اُٹھاتے ہیں۔ ججز کے لاکلرک اور یہ ریسرچ سیل ہر جج کے دئیے گئے نکات اور سوالات پر الگ الگ ریسرچ کرکے جوابات تحریری صورت میں جج کو بھجوا دیتے ہیں جِس کے بعد ہر جج اپنا اپنا نوٹ لکھتا ہے اور جب بینچ کے رُکن تمام ججز اپنا اپنا نوٹ یعنی رائے مُکمل لِکھ لیتے ہیں تو پھر تمام ججز ایک مُشترکہ مُلاقات کا اہتمام کرتے ہیں جِس میں سب اپنی اپنی رائے دیتے ہیں اور تحریری نکات بیان کرتے ہیں جِس کے بعد ججز کسی ایک جج پر اتفاق کرلیتے ہیں کہ وہ فیصلہ تحریر کرے گا اور مُتفقہ نکات کو فیصلہ کا حصہ بنائے گا جبکہ جو ججز اکثریت کی رائے سے اختلاف کرتے ہیں وہ اپنا نوٹ اختلافی نوٹ میں بدل کر جمع کروا دیتے ہیں جبکہ بعض اوقات کُچھ ججز اکثریت کے فیصلہ سے مُتفق رہتے ہوئے فیصلہ کے ساتھ اپنے نام سے اضافی نوٹ بھی لکھتے ہیں۔

حال ہی میں ایک اہم اور عوامی دلچسپی کا مُقدمہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست کا تھا۔ سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے آرٹیکل ایک سو چوراسی تین کے تحت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی طرف سے دائر درخواست کی سماعت کے لیے آٹھ رُکنی لارجر بینچ بنایا تھا لیکن جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی معروف قانون دان مُنیر اے ملک کی سربراہی میں بابر ستار اور صلاح الدین پر مُشتمل ٹیم نے بینچ کے رُکن دو ججز پر اعتراض کرکے فُل کورٹ بنانے کا مُطالبہ کیا تھا جِس کے بعد وہ دو ججز بینچ سے علیحدہ ہوگئے تھے اور سابق چیف جسٹس نے سُپریم جوڈیشل کونسل کا حصہ تین سینئر ججز بشمول سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ اور اِن دو ججز کے علاوہ باقی تمام ججز مُشتمل دس رُکنی فُل کورٹ مُقدمہ کی سماعت کے لیے تشکیل دے دی تھی۔ سُپریم کورٹ کا دس رُکنی فُل کورٹ سماعت کرکے مُختصر فیصلہ جاری کر چُکا ہے۔ لیکن تفصیلی فیصلہ کا سسپنس ابھی باقی ہے اور حکومت، وُکلا برادری، صحافیوں اور سیاسی و سماجی کارکنوں، خود عدلیہ کے ارکان سمیت عام عوام کی نظریں اِس وقت سُپریم کورٹ پر ہے کہ وہ تفصیلی فیصلہ میں کیا کہتی ہے؟ ایف بی آر کو معاملہ بھجوانے کی کیا وجوہات دیتی ہے؟ ریفرنس کو خارج کرنے کے کیا گراونڈز دیتی ہے؟ کیا ریفرنس کو بدنیتی پر خارج کرتی ہے یا تکنیکی بُنیادوں پر خارج کرتی ہے؟ ایسٹ ریکوری یونٹ کی آئینی حیثیت، وزارتِ قانون، کابینہ، وزیراعظم اور صدر کے ریفرنس بھجوانے میں ادا کیے گئے کردار میں کیا آرٹیکل 209 میں درج طریقہ کار اختیار کیا گیا یا نہیں؟ اِن سب سوالوں کا جواب تفصیلی فیصلہ میں آئے گا۔ مُختصر فیصلہ میں فُل کورٹ کے تمام دس ججز صدارتی ریفرنس خارج کرنے پر مُتفق تھے لیکن درخواستگزار جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے اہلخانہ کا معاملہ ایف بی آر کو بھجوانے پر سات ججز کی اکثریت سے تین ججز نے اختلاف کیا۔ جیسا کہ میں اوپر بیان کرچُکا ہوں کہ فیصلہ کیسے لکھا جاتا ہے اور کیسے ججز مُلاقات کرکے اُس فیصلہ کو حتمی شکل دیتے ہیں تو عدالتی تعطیلات کے باعث جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی درخواستوں کی سماعت کرنے والے دس رُکنی فُل کورٹ کے تمام ججز اسلام آباد میں موجود نہیں ہیں۔ فی الحال یہ ججز اپنے اپنے آبائی شہر یا اسلام آباد میں رہتے ہوئے اپنی اپنی ریسرچ کررہے ہیں اور اپنے نوٹ کو تحریری شکل میں لارہے ہیں اور ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ دو ججز نے تو ابھی نوٹ کو تحریری شکل دینا شروع بھی نہیں کی۔ ستمبر کے پہلے ہفتے میں عدالتی تعطیلات کے اختتام پر تمام ججز اسلام آباد میں موجود ہوں گے اور مُشترکہ مُلاقات کا اہتمام بھی تب ہی مُمکن ہوگا۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ غالب امکان ہے کہ پہلے ہفتہ کے علاوہ کسی بھی تاریخ کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس کا تفصیلی فیصلہ مُتوقع ہے۔ اِس فُل کورٹ میں دو معزز ججز ٹیکس قوانین کے ماہر ہیں جِن میں سے ایک معاملہ ایف بی آر کو بھجوانے والی سات رُکنی اکثریت کا حصہ ہے اور ذرائع کا دعویٰ ہے کہ یہی معزز جج اکثریتی فیصلہ تحریر کرسکتے ہیں۔ جبکہ اختلاف کرنے والے تین ججز میں سے ٹیکس امور کے ماہر معزز جج کا اختلافی نوٹ بھی بہت اہم قرار دیا جارہا ہے۔

JUSTICE QAZI FAEZ ISA

Tabool ads will show in this div