زلمے خلیل زاد کا پاکستان کا دورہ،افغان امن عمل پر بات چیت

امریکا کے نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد نے وسطی ایشیا ممالک کے دورے کے بعد پاکستان میں اعلیٰ حکام کیساتھ افغان امن عمل پر گفتگو کی۔
خبر رساں ادارے کے مطابق زلمے خلیل زاد نے پاکستان دورے میں وزارتِ خارجہ میں وزیرِ خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی سے ملاقات کی۔ پاکستان کی وزارتِ خارجہ کے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق دونوں رہنماؤں کی ملاقات میں خطے کی صورتِ حال کے ساتھ ساتھ افغان امن عمل کے حوالے سے خصوصی طور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
2/5 We discussed the latest on the peace process & the critical role Central Asia has played & will continue to play in pursuit of peace; how it will benefit from peace with increased regional connectivity, trade & development. @DFCgov is prepared to invest in the region's future
— U.S. Special Representative Zalmay Khalilzad (@US4AfghanPeace) July 1, 2020
اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد نے کراچی اسٹاک ایکسچینج پر ہونے والے حملے میں ہلاکتوں پر افسوس کا اظہار کیا جب کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے بروقت کارروائی کو سراہا۔ اس موقع پر وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ افغان امن عمل میں اب تک ہونے والی پیش رفت حوصلہ افزا ہے۔ فریقین کی جانب سے بین الافغان مذاکرات کے آغاز پر آمادگی خوش آئند ہے۔ ان مذاکرات سے افغانستان میں مستقل اور دیرپا امن کی راہ ہموار ہو گی۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ افغان امن عمل اب ایک اہم مرحلے میں داخل ہو چکا ہے۔ اس موقع پر ان عناصر سے خبردار رہنا ہو گا جو افغانستان میں قیامِ امن کی کاوشوں کو سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں۔ افغانستان کے مسئلے کے مستقل اور پُر امن سیاسی حل کے لیے پاکستان علاقائی و عالمی فریقین کے ساتھ تعاون کے لیے تیار ہے۔ پورے خطے کی تعمیر و ترقی کا انحصار افغانستان میں قیام امن سے مشروط ہے۔
قبل ازیں زلمے خلیل زاد نے ازبکستان کے دارالحکومت تاشقند میں حکام سے ملاقاتیں کی تھیں۔ زلمے خلیل زاد کے مطابق ان ملاقاتوں میں سرمایہ کاری سے متعلق مواقع زیر بحث آئے۔ ان کا کہنا تھا کہ مستحکم اور پر امن افغانستان نہ صرف خطے بلکہ پورے وسط ایشیا کے امن اور ترقی کے لیے اہم ہے۔
واضح رہے کہ امریکا کے نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد پاکستان، قطر اور ازبکستان کا دورے کر رہے ہیں۔ ان کے دورے کا مقصد بین الافغان مذاکرات شروع کرانے کے لیے کی جانے کوششوں کو تیز کرنا ہے۔ اس دورے کے حوالے سے امریکی محکمہ خارجہ نے کہا تھا کہ دورے میں افغانستان کی اقتصادی بحالی اور خطے میں پائیدار امن و استحکام کے فروغ جب کہ مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کے امکانات کا بھی جائزہ لیا جائے گا۔
یہ دورہ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب امریکہ اور طالبان کے درمیان دوحہ میں طے پانے والے معاہدے کے تحت افغان حکومت اور طالبان کے درمیان قیدیوں کے تبادلے میں نمایاں پیش رفت ہو چکی ہے۔ اب تک افغان حکومت نے طالبان کے پانچ ہزار قیدیوں میں سے 75 فی صد کو رہا کر دیا ہے جب کہ طالبان نے بھی افغان حکومت کے 600 سے زائد قیدی رہا کیے ہیں۔
دوسری جانب امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان مورگن آرٹیگس نے کہا ہے کہ وڈیو کانفرنس کے ذریعے وزیر خارجہ پومپیو نے طالبان کے چیف مذاکرات کار ملا برادر کے ساتھ امریکہ طالبان سمجھوتے پر عمل درآمد کے معاملے پر گفتگو کی۔
رواں سال 29 فروری کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدہ طے پایا تھا جس کے بعد افغانستان میں 19 سال سے جاری جنگ ختم ہونے کے امکانات روشن ہو گئے تھے۔