پاکستان میں 8 سال بعد افراط زر بلند ترین سطح پر

پاکستان میں 2012 کے بعد مالی سال 2019-20 میں افراط زر کی شرح بلند ترین سطح پر پہنچ گئی۔ یعنی روپے کی قدر میں کمی اور مہنگائی میں اضافہ ہوا۔
تیس جون کو ختم ہونے والے مالی سال میں افراز زر کی متناسب شروح 10.74 فیصد تھی جو گذشتہ آٹھ سالوں میں افراط زر کی سب سے زیادہ شرح ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ 10،000 روپے جو آپ نے پچھلے سال اپنے بچت اکاؤنٹ میں رکھے تھے اب اس کی قیمت 9000 روپے ہے۔
ادارہ شماریات 480 عام اشیا اور خدمات جیسے 'تعلیم کا خرچہ، گھر کا کرایہ، یوٹیلیٹی بل اور خوراک اور مشروبات کی قیمتوں کی پیمائش کرکے افراط زر کی شرح کا حساب لگاتا ہے۔

گزشتہ سال میں افراط زر کو موجودہ حکومت کی پالیسیوں کے درج ذیل عوامل سے منسوب کیا جاسکتا ہے۔
حکومت نے جولائی 2019 میں آئی ایم ایف بیل آؤٹ پروگرام کی شرائط کو پورا کرنے کے لئے افراط زر کا بجٹ پیش کیا تھا۔ اس پروگرام کے تحت حکومت نے بجلی اور گیس کے نرخوں میں اضافہ کیا اور پاکستانی کرنسی کی قدر میں 25 فیصد کمی کی۔ درآمدات میں ڈیوٹی بڑھا دی اور چھ ماہ میں پٹرول ٹیکس دوگنا کردیا۔

دوسری طرف گندم کی خریداری میں بد انتظامی اور غلط وقت پر چینی کی برآمد کی اجازت دینے سے گندم اور چینی کا سنگین بحران پیدا ہوا جس سے افراط زر کی شرح جنوری میں 14.6 فیصد سے اوپر ہوگئی جو ایک دہائی کی بلند ترین سطح ہے۔
اسٹیٹ بینک نے سود کی شرح کو کئی دہائیوں کی اونچی سطح تک بڑھا دیا اور کئی مہینوں تک اسے بند سطح پر ہی رکھا جس سے قرضہ لینا کاروبار کے لئے مہنگا پڑ گیا۔
مہنگے ایندھن نے آمدورفت کے اخراجات بڑھا دیئے جس سے کاروبار کو اپنی مصنوعات کی فراہمی یا پیداوار کے عمل کے لئے خام مال حاصل کرنا مہنگا ہوگیا۔ جیسے جیسے پیداوار کی لاگت میں اضافہ ہوتا گیا اور کاروباری طبقے نے اس اضافے کا بوجھ صارفین پر ڈال دیا۔

دوسری طرف اسٹیٹ بینک نے شرح نمو میں اضافہ کرکے معاشی نمو کو توڑ دیا جس سے معاشی نمو کے تخمینے کو 2٪ سے نیچے کردیا گیا ہے- لیکن بدترین صورتحال ابھی باقی ہے۔
جیسے ہی کرونا وائرس کے معاملات میں اضافہ ہوا، ملک میں تین ماہ کے لئے دکانوں، دفاتر اور فیکٹریوں کو تالے پڑگئے جو 68 سالوں میں پہلی مرتبہ معیشت کو کساد بازاری میں دھکیلنے کا باعث بن گیا۔