کراچی:اسٹاک ایکس چینج پرحملہ ناکام،4دہشتگرد ہلاک،3 اہلکارشہید

کراچی کے مصروف ترین علاقے آئی آئی چندریگر روڈ پر واقع پاکستان اسٹاک ایکسچینج کی عمارت پر 29 جون کی صبح سیکیورٹی اداروں نے دہشت گردوں کا حملہ ناکام بنا دیا۔ حملے میں 4 دہشت گرد ہلاک ہوئے۔ دوسری جانب کالعدم بلوچستان لبریشن آرمی نے حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے حملہ آوروں کی تصاویر بھی جاری کردی ہیں۔
پولیس، رینجرز اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے حملے کی اطلاع ملتے ہی اسٹاک ایکسچینج کی عمارت کے باہر پہنچ گئے اور چند منٹوں میں ہی دہشت گردوں کا حملہ ناکام بنا دیا۔ اس موقع پر اسٹاک مارکیٹ کی عمارت کے باہر تعینات سیکیورٹی گارڈز نے بھی بہادری سے دہشت گردوں کا مقابلہ کیا۔ دہشت گرد گاڑی میں عمارت کی پارکنگ ایریا تک پہنچے۔
حملہ آوروں کی تعداد
عینی شاہدین کے مطابق2 حملہ آروروں کی لاشیں دروازے کے پاس سے ملیں۔ حملہ آوروں کی تعداد 4 تھی۔ فائرنگ کے واقعہ میں سیکیورٹی گارڈ بھی زخمی ہوا۔ فائرنگ کے فوراً بعد اسٹاک ایکسچینج کی عمارت کا دروازہ بند کردیا گیا۔ کسی کو اندر سے باہر یا باہر سے اندر آنے جانے کی اجازت نہیں۔

اسٹاک ایکسچینج کے اندر موجود ملازمین نے اپنے آپ کو کمروں میں بند کرلیا ہے۔
ترجمان سندھ رینجرز کے مطابق حملےمیں ملو ث تمام دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا گیا ہے ، جب کہ کلیئرنس آپریشن جاری ہے، بی ڈی ایس کے عملے کو طلب کرلیا گیا ہے۔ ڈی آئی جی ساوتھ کا کہناہے کہ دہشت گرد جس گاڑی میں آئے تھے اسے بھی قبضے میں لے لیا گیا ہے۔ پولیس حکام کے مطابق دہشت گردوں کی فائرنگ سے 2 افراد بھی ہلاک ہوئے ہیں۔

ابتدائی تحقیقات
ابتدائی اطلاعات کے مطابق حملہ آور اپنی گاڑی عمارت کے اندر لے کر جانا چاہتے تھے، تاہم فائرنگ کے تبادلے میں 2 دہشت گرد عمارت کے باہر ہی اندر جانے کے راستے پر ہلاک ہوئے، تحقیقاتی اداروں نے شواہد اکٹھے کرنا شروع کر دیئے۔
دہشت گردوں کے سامان سے 4 ایس ایم جیز، 4 بیگز بھی برآمد ہوئے، جس میں بوتلیں، کھجوریں اور دیگر سامان شامل تھا۔ سیکیورٹی اداروں کے مطابق حملہ آوروں نے پہلے اس جگہ کی ریکی کی۔
سیکیورٹی اداروں کے مطابق فورسز نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے حملہ ناکام بنایا گیا۔ حملہ آور اسٹاک ایکسچیج میں گھس کر یہاں قبضہ اور لوگوں کو یرغمال بنانا چاہتے تھے۔
ڈی آئی جی ساؤتھ شرجیل کھرل کے مطابق حملہ آوروں کے پاس جدید ہتھیار موجود تھے،وہ پارکنگ کے ذریعے عمارت میں داخل ہوئے تھے۔
آٹھ لاشیں
دوسری جانب ریسکیو ٹیموں کا کہنا ہے کہ اسٹاک ایکسچینج کی عمارت سے 8 لاشیں سول اور جناح اسپتال منتقل کی گئی ہیں۔ پولیس کے مطابق واقعہ میں 3 اہل کار زخمی بھی ہوئے، لاشوں کی شناخت کا عمل شروع کردیا گیا ہے۔
آئی جی پولیس کے مطابق حملے میں 2 پولیس اہل کاروں اور 1 سیکیورٹی گارڈ نے جام شہادت نوش کیا۔ ایک شہید پولیس اہل کار کی شناخت سب انسپکٹر شاہد کے نام سے کی گئی ہے۔ یہ اہل کار دہشت گردوں سے مقابلے میں شہید ہوئے۔ دونوں اہل کار اسٹاک ایکسچینج کی عمارت پر سیکیورٹی کے فرائض انجام دے رہے تھے۔
پولیس سرجن
پولیس سرجن کے مطابق سول اسپتال میں اب تک حملے کے 8 زخمی لائے گئے ہیں۔ 8 لاشوں کو بھی سول اسپتال لایا گیا۔ سرجن ڈاکٹر قرار عباسی کا مزید بتانا تھا کہ حملے میں شہید ایک پولیس سب انسپکٹر اور 2 سیکیورٹی گارڈز کی لاشیں بھی شامل ہیں۔ اسپتال لائے جانے والے زخمیوں کی حالت تشویشناک ہے۔ لاشوں کو پوسٹمارٹم کیلئے مردہ خانے منتقل کردیا گیا ہے۔
را طرز کا حملہ
دفاعی تجزیہ کار بریگیڈیئر حارث نواز کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ حملہ را طرز کا ہے اور اس میں ان کا ہاتھ ہوسکتا ہے۔ یہ حملہ را فنڈڈ تنظمیوں کی کارروائیوں سے مماثلت رکھتا ہے۔
عینی شاہد کا آنکھوں دیکھا حال
کراچی اسٹاک ایکسچینج پر ہونے والے حملے کا آنکھوں دیکھا حال بتاتے ہوئے عینی شاہد عباس کا کہنا تھا کہ جب وہ صبح آفس آ رہا تھا تو اسے ایک کال موصول ہوئی کہ پاکستان اسٹاک کی عمارت میں فائرنگ کی آواز سنی گئی ہے۔ عینی شاہد عباس جو کہ اسٹاک مارکیٹ کی عمارت کے قریب ہی کام کرتا ہے ، کا مزید کہنا تھا کہ جب میں شدید فائرنگ کی آواز سنی تو میں یہ سمجھا کہ کہیں دو بروکرز میں جھگڑا ہوا ہے۔ تاہم جب میں آفس میں داخل ہوا تو معاملے کی سنگینی اور دہشت گردوں کے حملے کا علم ہوا۔

آر آر ایف
سما ڈیجیٹل کے رپورٹر روحان سے گفتگو میں اسٹاک ایکس چینج کے سیکیورٹی گارڈ کاصادق نواز کا کہنا تھا کہ ریپیڈ رسپانس فورس کے اہل کار نہ ہوتے تو بہت زیادہ جانی نقصان ہوتا۔

آر آر ایف کے اہل کار عامر حسین نے سما ڈیجیٹل کو بتایا کہ پرائیوٹ کمپنی کے گارڈز کے پاس محدود تعداد میں گولیاں ہوتی ہیں، ایسے میں آپ کیسے توقع کرسکتے ہیں کہ وہ چند گولیوں سے دہشت گردوں کا مقابلہ کرے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ دہشت گردوں سے مقابلے میں ایک پرائیویٹ کمپنی کا گارڈ شہید ہوا۔
دوسری کالعدم جانب بلوچستان لبریشن آرمی نے ٹوئٹر پر ایک بیان میں حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے حملہ آوروں کی تصاویر اور نام بھی جاری کیے ہیں۔ ٹوئٹر نے بیان جاری ہونے کے کچھ دیر بعد مذکورہ اکاؤنٹ بند کردیا ہے۔