اعلیٰ عدلیہ کا فیصلہ اور کراچی سرکلر ریلوے متاثرین
یہ کہانی ان افراد کی ہے جن کے بارے میں کوئی بات کرنے کو تیار نہیں۔ کوئی ان کے حق کے لئے آواز بلند کرنے اور ان کی مدد کرنےکو آگے نہیں بڑھتا بلکہ جو چند لوگ ان کی مدد کرنے اور ان کی آواز بننے کی کوشش کرتے ہیں انھیں بھی اچھے الفاظ سے یاد نہیں کیا جاتا۔ ان کا قصور کیا ہے؟ ان کا سب سے بڑا قصور یہ ہے کہ ان کا تعلق شہر کے غریب طبقے سے ہے۔ ان کا قصور یہ کہ وہ کچی آبادیوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔ ان کا قصور یہ ہے کہ وہ غربت کے بوجھ تلے دبے ہیں۔ اسی غربت کے سبب معاشرہ انہیں کبھی قبضہ گیر کا نام دیتا ہے تو کبھی جرائم پیشہ جبکہ حقیقتا ان کا سب سے بڑا جرم 'غربت' ہے۔
ہم بات کر رہے ہیں شہر کراچی کی 60 فیصد آبادی کی جو کہ اپنی غربت کے سبب غیر رسمی بستیوں میں رہنے پر مجبور ہیں- ایسی ہی غیر رسمی بستیوں میں کراچی سرکلر ریلوے (کے سی آر) روٹ سے ملحقہ وہ بستیاں بھی ہیں جنہیں ایک سال قبل، مئی 2019 اعلیٰ عدلیہ کے ( 9 مئی 2019 کے ) حکم کے تحت مسمار کرکے وہاں کے مکینوں کو بے گھر کردیا گیا تھا۔ مگر مسمار کرنے والے یہ بھول گئے کہ اعلیٰ عدلیہ کا مکمل فیصلہ کیا ہے؟ اور فیصلے کے پہلے حصے پر عمل کرنے کے بعد اسکے دوسرے حصے کو نظر انداز کردیا جس میں اعلیٰ عدلیہ نے واضح احکامات دیے تھے کہ اس منصوبے سے متاثرہ افراد کی نہ صرف دوبارہ آبادکاری کی جائے بلکہ یہ ہدایت بھی کی تھی بحالی کرتے ہوئے اس بات کا خیال رکھا جائے کہ ایک کچی آبادی کو ختم کرکے ایک دوسری کچی آبادی نہ بنائی جائے- لیکن افسوس صد افسوس ان ہدایات پر کوئی توجہ نہیں دی گئی کیونکہ معاملہ غریب اور کمزور طبقے کا تھا-
پریس کانفرنس سے لے کر احتجاجی مظاہروں تک ہر کوشش کرکے دیکھ لی گئی بلکہ پاکستان کے چیف جسٹس سے متاثرین نے بارہا درخواست کی کہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ اعلیٰ عدلیہ کے حکم پر عمل درآمد کرایا جائے مگر بڑے منصف کے کانوں تک یہ بات پہنچ نہ سکی کہ گذشتہ سال رمضان کے دوران ان کے حکم پر قائداعظم کالونی، غریب آباد، مجاہد کالونی، واحد کالونی، موسیٰ کالونی اور پنجاب کالونی سے لے کر گیلانی اسٹیشن تک جن خاندانوں کو بے گھر کیا گیا تھا وہ ابھی تک اپنے گھر کے ملبے پر بیٹھے ہیں اور اس بحالی کے منتظر ہیں جس کے آثار تاحد نگاہ نظر نہیں آرہے۔ اب تو ان کے بچے بھی یہ سوال کرتے تھک چکے ہیں کہ ہم دوسرے گھر میں کب جا ئیں گے جسکا وعدہ اعلیٰ عدلیہ نے 9 مئی 2019 کو اپنے حکم نامے میں کیا تھا۔ آج ان ساڑھے پانچ سو مکانات کو مسمار کیے ہوئے ایک سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے اور ہزار سے زائد خاندان اپنے ٹوٹے پھوٹے گھروں میں حتیٰ کہ کئی ایک اپنے مکانوں کے ملبے پر امید و بیم کی کیفیت سے دوچار ہیں کیونکہ نہ ان کے پاس کوئی دوسرا راستہ ہے نہ کوئی ذریعہ۔
غربت کا مقابلہ کرتے یہ لوگ، سردی کی سختی سے لے کر بارش کی نمی تک برداشت کر چکے ہیں اور اس وقت کرونا وائرس سے برسر پیکار نظر آتے ہیں مگر بات یہاں ختم نہیں ہوتی آنے والے مہینوں میں انہیں گرمی کی تپش کا بھی مقابلہ کرنا ہے کیونکہ کچی ہی سہی مگر چھت تو تھی جو سورج کے آگے رکاوٹ کا کام دیتی تھی۔ بہت مضبوط نہیں مگر دیواریں تھیں جو ان ہزار سے زائد خاندانوں کی خواتین کے لئے پردے کا کام کرتیں تھیں مگر نہ ہی وہ کچی چھت رہی اور نہ وہ دیواریں۔ سب ملبے میں تبدیل کردیا گیا اور رہی سہی کسر کرونا وائرس کے لیے کیے جانے والے لاک ڈاؤن نے پوری کردی اور غیر رسمی معیشت سے وابستہ ان غریبوں پر زندگی مزید تنگ ہوگئی۔
اپنے گھروں سے محروم، کراچی سرکلر ریلوے منصوبے سے متاثرہ یہ افراد کھلے آسمان کے نیچے اور ملبے کے بیچ میں (جو کبھی ان کا مکان تھا) غربت، موسم اور اب گرمی کا سامنا کرنے کی ہمت جمع کر رہے ہیں۔ بلخصوص قائداعظم کالونی کے مکین ابتر حال میں ہیں کیونکہ گذشتہ سال جب سے ان کے مکانات کو مسمار کیا گیا تھا ان کے پاس پانی، بجلی اور بیت الخلا نہیں ہے۔ جبکہ حکام بالا اس بات کے پابند ہیں کہ اعلیٰ عدلیہ کہ حکم کے مطابق کراچی سرکلر ریلوے بحالی منصوبے سے متاثرہ افراد کے لئے تمام بنیادی دفعات کے ساتھ ایک سال کے اندر متبادل رہائش فراہم کی جائے۔
ان متاثرین نے ایک سال تک انتظار کیا کہ شاید کسی سرکاری ادارے کے لوگ ان سے رجوع کریں اور ان کی بحالی کے لئے کوئی کارروائی عمل میں لائی جائے مگر ان کا یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا۔ اب جبکہ "ایک سال ہو گیا" ہے مگر حکومتی سطح پر کوئی مشترکہ کمیٹی تشکیل نہیں دی گئی ہے جہاں متاثرہ افراد کو شامل کیا جاسکے۔ یوں لگتا ہے کہ اداروں کا مقصد کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی نہیں بلکہ ان بستیوں کا انہدام تھا-
گزشتہ سال کی گئی اس جبری بے دخلی و مسماری نے لوگوں کی معاش، تعلیم اور ان کی زندگی کے دیگر معاشرتی پہلوؤں کو تباہ کردیا ہے۔ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ موجودہ وبائی صورتحال کے دوران بھی حکومت اخلاقی یا معاشی طور پر ان متاثرہ افراد کی کوئی مدد نہیں کر رہی جبکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان کہ دوبارہ آبادکاری کے حکم کو فوری طور پر نافذ کیا جائے۔ اور ان متاثرین کو انکے سابقہ مکانوں کے قریب دوبارہ آباد کیا جائےتاکہ ان کے بچوں کی روزی روٹی اور تعلیم متاثر نہ ہو۔
حکام کا یہ رویہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں اس معاملے میں متعدد قراردادیں منظور کی گئیں، پریس کانفرنسیں کی گئیں ساتھ ہی اخبارات میں خبریں شائع ہوچکی ہیں مگر افسوسناک پہلو یہ ہے کہ اب بھی کوئی حل نہیں نکلا ہے۔ اب اعلیٰ عدلیہ کو کارروائی کرنی چاہئے اور اس بات کو یقینی بنانا چاہیئے کہ عدالتی احکامات پر عملدرآمد کیا جائے۔ حکام بالا اور سرکاری اہلکار جنہوں نے ان بستیوں کو مسمار کیا وہ اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ کراچی سرکلر ریلوے بحال ہوگی یا نہیں۔ اب یہ اعلیٰ عدلیہ کا کام ہے کہ حکومت کو عدالتی احکامات پر عملدرآمد کرنے اور متاثرہ لوگوں کی بحالی کے لئے کسی بھی طرح مجبور کرے۔
بقول حبیب جالب
سزا کے طور پر ہم کو ملا قفس جالب ---------- بہت تھا شوق ہمیں آشیاں بنانے کا