
تحریر: نوید نسیم
لاہور : لاہور کے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 122 میں ہونے والے ضمنی الیکشنز میں حلقہ کی ہر سڑک اوپر تلے بینرز، بلبورڈز اور پوسٹرز سے بھری ہوئی ہے، جسے دیکھ کر لگتا ہے کہ اس حلقہ میں مقابلہ صرف پاکستان مسلم لیگ نواز کے امیدوار سردار ایاز صادق اور پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار علیم خان کے درمیان ہے۔ اِکّا دکا جگہوں پر پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار بیرسٹر میاں عامر حسن کے بھی بینرز اور پوسٹرز نظر آتے ہیں، جس کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔

نواز لیگ اور تحریک انصاف کی انتخابی مہم کا اندازہ لگایا جائے تو دیکھا جاسکتا ہے کہ علیم خان اور شعیب صدیقی کے پوسٹرز اور بینرز کی تعداد ایاز صادق اور محسن لطیف کے بینرز اور پوسٹروں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے، جس کے بعد یہ کہا جاسکتا ہے انتخابی مہم کی دوڑ میں تحریک انصاف آگے ہے۔
نواز لیگ کے بینرز اور پوسٹرز پر سب سے نمایاں شریف فیملی ہے۔ جس کی وجہ سے نواز شریف، شہباز شریف، حمزہ شہباز اور مریم نواز کی تصاویر نمایاں ہیں، جب کہ ایاز صادق کی تصویر انتخابی نشان شیر کے عقب میں دیکھی جاسکتی ہے، صوبائی اسمبلی کی سیٹ کے لئے امیدوار محسن لطیف کی تصویر کو تو بس تکلفاً ہی جگہ دی گئی ہے۔

تحریک انصاف کے بینرز اور پوسٹرز میں عمران خان کے علاوہ علیم خان کو بھی نمایاں پذیرائی حاصل ہے اور صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی پی 148 سے منتخب شدہ میاں اسلم اقبال بھی تقریباً ہر پوسٹر اور بینر کی زینت ہیں۔
سڑکوں پر لگے بینرز اور پوسٹرز کے علاوہ ایک بڑی تعداد ایسی گاڑیوں کی بھی ہے، جس پر ایاز صادق یا علیم خان کے انتخابی اسٹیکرز چسپاں ہیں، موٹر سائیکل سوار جیالوں کی ٹولیاں بھی بازاروں میں دندناتی نظر آتی ہیں، فقط یہ کہ ضمنی انتخابات سے کچھ دن پہلے سیاسی ماحول پوری طرح سے گرم ہے۔
گلیوں اور بازاروں میں انتخابی دفتروں کی رونقیں رات گئے تک آباد رہتی ہیں اور مبینہ اطلاعات کے مطابق تحریک انصاف کے امیدوار علیم خان کی جانب سے تحریک انصاف کا انتخابی دفتر کھولنے پر دو سے چار لاکھ روپے (جگہ کے مطابق) دئیے گئے ہیں اور روزانہ کا خرچہ چلانے کے لئے بھی انتخابی خرچ دیا جارہا ہے۔

دوسری طرف نواز لیگ مبینہ اطلاعات کے مطابق ہزاروں کرسیاں حلقے میں بانٹ چکی ہے اور حکومتی وزیروں کی طرف سے علاقے کے منتظمین کو سرکاری نوکریاں دینے کے وعدے بھی کئے جارہے ہیں، انتخابی مہم میں حمزہ شہباز کے علاوہ خواجہ سعد رفیق، عابد شیر علی، طلال چوہدری اور ماروی میمن آگے آگے ہیں۔
اتوار کو سمن آباد کی ڈونگی گراؤنڈ میں ہونے والے جلسے میں چیئرمین تحریک انصاف کا کہنا تھا کہ نواز لیگ کی دھاندلی کو روکنے کے لئے تحریک انصاف نے حکمت عملی بنا لی ہے اور ایک خاص ٹیم سابق گورنر پنجاب چوہدری سرور کی سربراہی میں انتخابی عمل پر نظر رکھے گی۔ عمران خان کا مزید کہنا تھا کہ ہر پولنگ اسٹیشن کے اندر اور باہر فوجی تعینات ہوگا اور ووٹوں والے تھیلوں کی منتقلی کے وقت بھی ایک فوجی گاڑی کے اندر موجود ہوگا۔ اس کے علاوہ تحریک انصاف کے جیالے موٹر سائیکلوں پر ووٹوں کے بیگز لےجانے والی گاڑی کا پیچھا کریں گے۔
اطلاعات کے مطابق الیکشن والے دن کے لئے بھی تحریک انصاف اور نواز لیگ کی طرف سے خاص انتظامات کئے گئے ہیں اور ووٹرز کو گھروں سے پولنگ اسٹیشن لے جانے کیلئے ٹرانسپورٹ کا بندوبست کیا گیا ہے، تحریک انصاف خواتین ووٹرز کے لئے ایئر کنڈیشنڈ گاڑیوں کا بندوبست کر رہی ہے۔ اس کے علاوہ تحریک انصاف کی جانب سے ووٹرز کے لئے قیمے والے نانوں کا بھی انتظام کیا گیا ہے اور تحریک انصاف کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ووٹرز کو گائے کے گوشت کے قیمے والے نان دیئے جائیں گے نا کہ گدھوں کے گوشت کے۔
نواز لیگ بھی ووٹرز کے لئے ٹرانسپورٹ کا بندوبست کر رہی ہے اور ووٹرز کے لئے چکن بریانی کا بندوبست کیا گیا ہے، جس پر تحریک انصاف کے ٹائیگرز کا کہنا ہے کہ انتخابی مہم میں حمزہ شہباز کے پولٹری فارمز سے چکن آئیگا اور حمزہ شہباز اس موقع کو بھی کیش کر رہے ہیں۔
ویسے تو الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابی مہم کے دوران اخراجات کا ضابطہ اخلاق طے کیا گیا ہے مگر دونوں جماعتوں کی طرف سے کئے جانے والے خرچوں سے نہیں لگتا کہ کسی بھی ظابطہ اخلاق کی پیروی ان ضمنی انتخابات میں کی گئی ہے۔ دونوں جماعتیں ہی اپنی انا کا مسئلہ بناتے ہوئے انتخابی مہم پر خرچہ کر رہی ہیں۔ جس میں بظاہر تحریک انصاف آگے لگتی ہے۔ مگر بہتر انتخابی مہم کا فیصلہ 11 اکتوبر کو ہی ہوگا۔ سماء