اٹارنی جنرل کیپٹن (ر) انورمنصورخان نے استعفیٰ کیوں دیا؟
اٹارنی جنرل کیپٹن (ر) انور منصور خان بقول اُنکے پاکستان بار کونسل کے مُطالبے پر مستعفی ہوگئے ہیں جبکہ وزیرِ قانون، صدر، وزیراعظم اور ایسٹ ریکوری یونٹ کے سربراہ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست کی سماعت کرنے والے دس رُکنی فُل کورٹ کے سامنے جواب میں اٹارنی جنرل کے الزام سے فاصلہ اختیار کرلیا ہے۔
اٹارنی جنرل کی جانب سے جو الزام معزز ججز پر لگایا گیا تھا اسے کارروائی سے حذف کردیا گیا تھا اور عدالت کی جانب سے رپورٹرز کو کہا گیا تھا کہ اس الزام کو رپورٹ نہ کیا جائے۔ یہ الزام بظاہر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے دعویٰ کو تقویت دیتا تھا کہ وفاقی حکومت ججز کی غیر قانونی جاسوسی کرتی ہے۔
ذمہ دار ذرائع کا کہنا ہے عدالت کی جانب سے گزشتہ روز برہمی اور ججز کا مزاج دیکھتے ہوئے حکومت کے ایک انتہائی اہم وزیر نے اٹارنی جنرل کو میسج بھیج کر مستعفی ہونے کیلئے 3 بجے تک کی ڈیڈ لائن دی تھی جِس کے بعد اٹارنی جنرل انور منصور خان کے پاس آپشنز بہت محدود تھے یا تو مُستعفی ہوکر گھر چلے جاتے یا ’’بہت بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے‘‘ والا معاملہ ہوتا۔ اُنہوں نے لائف لائن اور دوست کو فون کال کی کوشش کے بعد مایوسی میں یقیناً پہلا آپشن استعمال کیا۔
لیکن یہ استعفیٰ اور حکومتی توجیہ ابھی بھی بہت سے سوال چھوڑ گئی ہے۔ بُنیادی سوال تو یہ ہے کہ منگل کو جب اٹارنی جنرل نے فُل کورٹ کے ججز پر انتہائی سنگین الزام لگائے تو اُس وقت کمرہِ عدالت میں وفاقی وزیرِ قانون فروغ نسیم، ایسٹ ریکوری یونٹ کے سربراہ بیرسٹر شہزار اکبر اور حکومتی ایم این اے ملیکا بُخاری بھی موجود تھیں۔
اگر حکومتی مؤقف ہے کہ اٹارنی جنرل نے اُنکی اجازت کے بغیر اور علم میں لائے بغیر ایک الزام لگا دیا تو مذکورہ صاحبان نے جب اٹارنی جنرل الزام لگارہے تھے اُسی وقت اُٹھ کر اس پر اعتراض کیوں نہ کیا؟، اُس ہی وقت فُل کورٹ کے سامنے وفاقی حکومت کی طرف سے اٹارنی جنرل کے الزام سے لاتعلقی کا اظہار کیوں نہ کیا گیا؟۔
راقم عدالتی تاریخ کے طالبعلم کے طور پر کمرہِ عدالت میں موجود تھا اور کمرہِ عدالت سے نکل کر میں نے ایک سینئر حکومتی ذریعے سے جب اِس الزام پر سوال پوچھا تو انہوں نے اِس الزام کی تردید کرنے کی بجائے جواب دیا کہ یقیناً اٹارنی جنرل کے پاس کوئی معلومات ہوں گی اسی لئے انہوں نے اتنا بڑا الزام لگایا ہے۔
بُدھ کے روز بھی کابینہ کے ارکان کمرۂ عدالت میں موجود تھے اور اٹارنی جنرل پر ججز کی برہمی کا قریباً ایک گھنٹہ نظارہ لیتے رہے لیکن کسی نے اُٹھ کر وفاقی حکومت کا مؤقف نہیں دیا۔ تو کیا یہ سمجھا جائے کہ انصاف کی دیوی کے قہر سے بچنے کیلئے اٹارنی جنرل انور منصور خان کو بلی چڑھایا گیا؟۔
اسد طور سماء ٹی وی کے پروگرام ’’سوال ودھ عنبر شمسی‘‘ کے پروڈیوسر اور سینئر صحافی ہیں۔