کالمز / بلاگ

بلوچستان، عدم اعتماد کی شوخیاں

جام کمال نے خصوصاً عبدالقدوس بزنجو کیخلاف کوئی محاذ کھولا

بلوچستان کے حکومتی اتحاد کے اندر یقینا کامل اتفاق رائے موجود نہیں ہے کیونکہ مخلوط حکومتیں مشروط چلتی ہیں۔ یہ اتحاد کئی جماعتوں پر مشتمل ہے۔ بلوچستان عوامی پارٹی کے پاس وزارت اعلیٰ ہے۔ گویا یہ جماعت صوبائی حکومت کو لیڈ کر رہی ہے۔ تحریک انصاف، عوامی نیشنل پارٹی، ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی، پی این پی اور جمہوری وطن پارٹی اس کا حصہ ہیں۔ تحریک انصاف بلوچستان کے صدر جوکہ وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی بھی ہیں نے 23 جنوری کو وزارت کا حلف اُٹھا لیا۔ انہیں اعلیٰ اور ثانوی تعلیم کے محکموں کا قلمدان سونپا گیا ہے۔ چناںچہ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ مخلوط حکومتوں میں اعتراضات، گلے شکوے، مزید مانگنا اور نقد و جرح ہوتا رہتا ہے۔ مگر سچی بات یہ ہے کہ جام کمال نے خصوصاً عبدالقدوس بزنجو کےخلاف کوئی محاذ کھولا اور نہ ہی ان کی راہ میں مسائل بنانے کی کوشش کی ہے۔

عبدالقدوس بزنجو صوبے کے تیسرے بڑے منصب پر فائز ہیں یعنی بلوچستان اسمبلی کے اسپیکر ہیں۔ عبدالقدوس بزنجو نے جام کمال کےخلاف حکومت بننے کے ساتھ ہی اُلجھنے اور بگاڑ کی راہ اپنائی۔ اسمبلی اجلاسوں میں غیر فعالیت، جا بجا جام کمال کے خلاف بولنا، لاہور، اسلام آباد اور کراچی جاکر میڈیا پر جام حکومت کی ناکامی، کمزوری، حتیٰ کہ ان کی ذات پر بولتے رہتے ہیں کہ کسی طرح جام کمال کو وزارت اعلیٰ کے منصب سے ہٹایا جائے۔ چار و ناچار بعض حکومتی اراکین اور خود جام کمال کو اس طرز عمل پر بولنا پڑا جس کے بعد عبدالقدوس بزنجو نے اسمبلی میں وزیراعلیٰ جام کمال خان، سینیٹر سرفراز بگٹی اور وزیر خزانہ ظہور بلیدی کیخلاف تحریک استحقاق جمع کرا دی، کہ ا ن کا استحقاق مجروح کرنے کے مرتکب ہوئے ہیں۔ حالانکہ خود عبدالقدوس بزنجو بارہا جام کمال خان کا استحقاق مجروح کرچکا ہے۔ کبھی کہتے ہیں جام کمال ان کے دوست اور اچھے انسان ہیں لیکن وزارتِ اعلیٰ کے قابل نہیں۔ کبھی کہا کہ انہیں بیورو کریٹ ہونا چاہیے تھا، جام میں کسی کمپنی یا ادارے کے چیئرمین بننے کی صلاحیت تو ہے وزیراعلیٰ بننے کی نہیں وغیرہ۔ حالاںکہ قدوس بزنجو پارٹی اور کابینہ کے فورم سے ہٹ کر مہم چلا رہے ہیں کہ انہیں حزب اختلاف اور اپنی جماعت کے ارکان کی حمایت حاصل ہے۔ وزیراعلیٰ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کا شو شہ چھوڑا اور کہا کہ بلوچستان کے عوام جلد جام حکومت سے نجات کی خوشخبری سنیں گے جبکہ عوام کی رائے و منشا برعکس ہے۔

عوام مسائل کے حل اور معیار زندگی کی بہتری کے آرزومند پر ہیں۔ انہیں اس محلاتی سیاست سے کوئی سروکار نہیں بلکہ اسے گند اور بدخبری سمجھتے ہیں۔ حزب اختلاف کے قائد ملک سکندر خان ایڈووکیٹ نے بھی شوخی دکھائی کہ قدوس بزنجو حکومتی اراکین میں سے 10 ممبران کو حزب اختلاف کے چیمبر لے آتے ہیں، تو حزب اختلاف کے 23 ارکان جمہوری حق ادا کرنے میں دیر نہیں کریں گے۔ جمعیت علماء اسلام ف اور بلوچستان نیشنل پارٹی پچھلی حکومت میں ’’باپ‘‘ والوں کی حلیف رہی ہیں۔ گویا صوبے کی یہ حکومت ان کے سہارے اور تعاون کا ثمرہ ہے۔ ان دو جماعتوں اور اے این پی نے نواب ثناءاللہ زہری کی حکومت کےخلاف مقتدرہ کا ساتھ دے کر حکومت گرا دی اور پھر بلواسطہ عبدالقدوس بزنجو کی 6 ماہ کی حکومت میں حصہ دار بن گئیں۔ بلوچستان اسمبلی میں پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کا اکلوتا رکن حزب اختلاف کا حصہ ہے۔ پشتونخوا میپ اور نیشنل پارٹی نواب زہری کی حکومت کا حصہ تھیں۔ عبدالقدوس بزنجو اور بعض اراکین اسمبلی پشتونخوا ملی عوامی پارٹی سے انتہائی بغض عناد رکھتے تھے۔ لہذا پشتونخوا میپ کے رکن نصرا اللہ زیرے اور نواب زہری کی سازشی سیاست میں حصہ داری معیوب و پست اقدام سمجھا جائے گا۔

سوال یہ ہے کہ اگر جام کمال خان منظر سے ہٹ بھی جائیں تو وزیراعلیٰ کون ہوگا۔ یقینا کوئی بھی تبدیلی ’’باپ‘‘ کے اندر سے ہی ہوگی۔ یعنی حزب اختلاف کے پلے کچھ پڑنے والا نہیں اور گزشتہ 6 ماہ کی حکومت میں افرا تفری، بدنظمی، صوبے کی بےتوقیری عوام کے حافظہ سے محو نہیں ہیں۔ جہاں یہ وزیراعلیٰ ہاﺅس میں آپس میں لڑ پڑتے، ایک دوسرے کو طعنے دیتے، برا بھلا کہتے۔ لہٰذا اس صوبے کو مزید بےحیثیت و بےتوقیر نہ کیا جائے۔ حالت تو یہ ہے کہ آفات جیسے حالیہ برفباری میں بھی دیکھا گیا کہ وفاق نے یہاں کے مسائل، جانی و مالی نقصان کو پرکاہ برابر اہمیت نہ دی۔ جام کمال خان کو وفاق کے خلاف بولنا پڑا۔ ڈاکٹر عبدالمالک نے ایک موقع پر کہا کہ بحیثیت وزیراعلیٰ سی پیک کے کسی معاہدے پر ان کے دستخط نہیں ہیں۔ گویا اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد بھی صوبہ خود مختار نہیں ہے۔ حکومت میں افراتفری اور کشکمش کی سیاست رہی یا اگر صوبہ غیر موزوں افراد کے حوالے ہو تو یقینا رہی سہی کسر و حیثیت بھی نہ رہے گی اور پھر بزنجو اپنے دعوے میں راست ہوتے تو قطعاً سینیٹ چیئرمین صادق سنجرانی اور وفاقی وزیر دفاع پرویز خٹک کو بیچ میں نہ لاتے جو اپنے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کی بھنک پڑتے ہی فورا ًاسلام آباد پہنچ گئے۔ بہرحال سینیٹر میر سرفراز بگٹی نے درست کہا کہ ’’عبدالقدوس بزنجو اسپیکر کے عہدے کے پیچھے چھپنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اگر آپ وزیراعلیٰ جام کمال خان کے خلاف مہم چلانا چاہتے ہیں تو اسپیکر کے عہدے سے مستعفی ہوجائیں‘‘۔ غرض بلوچستان اسمبلی کے اندر حزب اختلاف ان شوخیوں سے اپنا دامن بچا کے رکھے۔

Abdul Quddus bizenjo

JAM KAMAL

Tabool ads will show in this div