عید الاضحیٰ: 550 ارب کی معاشی سرگرمی
پاکستان میں مذہبی تہوار لوگوں کےلیے خوشیاں لے کر آتے ہیں تو ساتھ ہی ایک بڑی معاشی سرگرمی بھی ، مگر اس موقع پر عموماً مہنگائی کی شکایت کا معاملہ غالب رہتا ہے اور ان تہواروں کے مثبت پہلو نظر انداز ہوجاتے ہیں ۔ اگرچہ ناجائز منافع خوری اور مہنگائی ہمارے معاشرے کے تلخ حقائق ہیں مگر یہ بھی سچ ہے کہ ہمارے مذہبی تہواروں پر بڑی معاشی سرگرمیاں ہوتی ہیں جس سے لاکھوں لوگ مستفید ہوتے ہیں ۔ عید الاضحیٰ کے موقع پر جانوروں کے مہنگے ہونے کا شکوہ میڈیا پر دن رات سنائی دیتا ہے جو حقیقت کم اور فسانہ زیادہ ہے ۔ منڈیوں میں صرف رسد و طلب کا اصول بروئے کار آتا ہے اور مسابقت کی فضا ہوتی ہے جو مارکیٹ اکانومی کی بنیاد ہے ۔ طلب اور رسد کی بنیاد پر قیمتوں میں اتار چڑھاؤ معمول کی بات ہے ، اسے بڑھا چڑھا کر پیش کرنا اور اس تہوار کے مثبت پہلوؤں کو نظر انداز کرنا کسی طور انصاف کے زمرے میں نہیں آتا ۔
اقتصادی ماہرین کے مطابق عیدالاضحی پر ہونے والی معاشی سرگرمیوں کا حجم تقریبا 550 ارب روپے ہے ۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ دیہی معیشت کو ہوتا ہے جہاں سے جانور لائے جاتے ہیں ، بیوپاری کا روزگار بنتا ہے ، لوڈر گاڑیاں استعمال ہوتی ہیں ، ساتھ ہی شہروں کی جانب چارے کی رسد بڑھتی ہے ۔ ان سرگرمیوں سے کسان ، بیوپاری ، گاڑی مالک ، پٹرول اسٹیشن اور دیہاڑی دار مزدور فائدہ اٹھاتے ہیں ۔ عید کے تین دنوں میں جانور حلال کرنے والے ہزاروں افراد کو بھی روزگارملتا ہے ۔ اس کے علاوہ چمڑے کی صنعت کےلیے کھالیں بھی اکٹھی ہوتی ہیں اور اقتصادیات کے ٹرکل ڈاون افیکٹ سے فیکٹری ورکرز فائدہ اٹھاتے ہیں ۔ ماہرین کے مطابق اس سال 70 سے 80 لاکھ کھالیں اکٹھی ہونے کا امکان ہے جن میں60 فیصد گائے و بیل، 30 فیصد بکرے و دنبہ اور10فیصد کھالیں اونٹ کی ہوں گی جو برآمدی صنعت کیلئے بھی مفید ثابت ہوں گی ۔

اس معاملے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ سارا سال ہماری دیہی معیشت مختلف مسائل کا شکار رہتی ہے ، کبھی کسان کو فصل کے پورے پیسے نہیں ملتے تو کبھی سیلاب آجاتا ہے ، کبھی پانی نہیں تو کبھی بجلی کا مسئلہ ، کھاد کی قلت اور کیڑے مار ادویات میں جعلسازی ، کسانوں کے روز مرہ مسائل ہیں ۔ ایسے میں عیدالاضحٰی پر وہ اپنے چند جانوروں کے اچھے دام حاصل کرکے اگر سکھ کا سانس لیتا ہے تو یہ خوشی کی بات ہے ۔
اس تہوار کا ایک مثبت پہلو یہ بھی ہے کہ سارا سال جو غریب لوگ گوشت کھانے کی استطاعت نہیں رکھتے ، انہیں بھی گوشت کھانے کو ملتا ہے ۔ پھر مویشیوں کی جس رفتار سے افزائش ہوتی ہے ، ساتھ ساتھ وہ انسانی خوراک کا حصہ نہ بنیں تو قدرت کا توازن خراب ہوجائے ۔ لاکھوں جانور انسانی خوراک کا حصہ بننے کے باوجود پھر اتنی ہی تعداد میں پیدا ہوجاتے ہیں جو قدرت کا کرشمہ ہے ۔
شرعی تناظر میں دیکھیں تو قربانی صرف صاحب استطاعت افراد پر فرض ہے ، اس لیے جانور مہنگے ہونے کا شکوہ کرنا کچھ غیر منطقی بات ہے ۔ شریعت کا اصول یہی ہے کہ جیب اجازت دے تو قربانی کریں ورنہ معافی ہے ۔ پنجاب کے ضلع گجرات میں پیش آنے والا ایک افسوسناک واقعہ ہمارے معاشرے کو ایک منفی پہلو کو اجاگر کرتا ہے ۔ گجرات کے پولیس اہلکار کی طرح بعض بارسوخ لوگ اپنے عہدوں کا فائدہ اٹھا کر قربانی کے جانور سستے داموں خریدنے کی کوشش کرتے ہیں اور انکار پر اوچھے ہتھکنڈے استعمال کیے جاتے ہیں ۔ ایسی صورتحال پر بھی مفتیان کرام کو فتوی جاری کرنے کی ضرورت ہے ۔
بہرحال وسیع تناظر میں دیکھا جائے تو عید الاضحٰی کا تہوار ملکی معیشت کےلیے خاصا فائدہ مند ہے ۔ دین اسلام چونکہ انسانیت کی فلاح کا دین ہے ، تو اس کے تہوار بھی یقیناً انسانوں کےلیے خیر کا پیغام لے کر ہی آتے ہیں جس کی تصدیق ماہرین معیشت کا اعداد و شمار سے کی جاسکتی ہے۔ سماء