زندگی تماشا:دھمکیاں ملنےکےبعدسرمد کھوسٹ کاایک اورکھلاخط
معروف اداکاراور ہدایت کارسرمد کھوسٹ کی نئی فلم ’’ زندگی تماشا ‘‘ کی ریلیزکیلئے درپیش مشکلات کم نہ ہوسکیں۔ سرمد کھوسٹ نے دھمکی آمیز فون کالز اور پیغامات کے بعد سوشل میڈیا پر جاری کیےجانے والے ایک اور کھلے خط میں رائے طلب کی ہے کہ کیا انہیں اس فلم سے دستبردار ہوجانا چاہیے۔
اس سے قبل وزیراعظم اور دیگرکے نام کھلا خط لکھنے والے سرمد نے پاکستان اور پاکستانیوں کو فلم کی نمائش میں رکاوٹ ڈالے جانے سے متعلق تفصیل سے انہیں ملنے والی دھمکیوں کا بتایا۔
سرمد کھوسٹ نے اپنے کھلے خط میں واضح کیا کہ زندگی تماشا کسی کو تکلیف دینے ، اذیت پہنچانے یا بدنام کرنے کے لیے نہیں بنائی گئی بلکہ اس کی کہانی ایک اچھے مسلمان سے متعلق ہے۔فلم میں کوئی قابل اعتراض مواد نہیں ہے اور اسے سنسر بورڈ کی جانب سے بھی کلیئرکیا جا چکا ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ اس میں کسی فرقے ، پارٹی یا گروہ کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ اگر ایک داڑھی والے آدمی کو مولوی کہا جاتا ہے تو یہ فلم ایک اچھے مولوی سے متعلق ہے۔ اس کی دل گداز کہانی، وہ ایک انسان ہے اور جسے ایک انسانی آنکھ کے ذریعے ہی دکھایا گیا ہے۔
Getting dozens of threatening phone calls and msgs. Should I withdraw Zindagi Tamasha? pic.twitter.com/OJB396B1xq
— Sarmad Khoosat (@KhoosatSarmad) January 19, 2020
سرمدکھوسٹ نے اپنے خیالات واضح کرتے ہوئے کہا کہ بطور ایک آرٹسٹ وہ آخری کام جو وہ اپنے کام سے حاصل کرنا چاہیں گے انتشار یا نفرت پھیلانا ہے۔ وہ نہیں چاہتے کہ کسی کو بھی ان کی فلم پر پابندی سے خوشی ہو کیونکہ قانونی، سرکاری اوراخلاقی طور پر وہ اسے ریلیز کرنے کا حق رکھتے ہیں۔
خط میں سرمد نے مزید لکھا کہ تکمیل کے بعد فلم تینوں سینسربورڈز سے کلیئر کردی گئی تھی۔ انہوں نے لوگوں سے بھی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام کا استعمال کرتے ہوئے نفرت اور غصہ نہ پھیلانےکی درخواست کی۔ سرمد نے نے زور دیکر لکھا ’’مذہب کے نام پر نفرت ، خوف اور غصے کو ہوا مت دو‘‘۔
طویل خط کے آخر میں سرمد نے لکھا’’ اپنے اللہ کو نہ بتاؤ کہ تمہاری مشکل کتنی بڑی ہے، اپنی مشکل کو بتاؤ کہ تمہارا اللہ کتنا بڑا ہے‘‘ ، اس لیے یہ معاملہ میں اپنے اللہ پر چھوڑتا ہوں۔
انسٹا پر ایک اور پوسٹ میں سرمد نے ایک اسکرین شاٹ شیئر کرتے ہوئے بتایا یہ یہ ان سیکڑوں دھمکی آمیز پیغامات میں سے ایک ہے جو انہیں موصول ہو رہے ہیں۔ وہ ڈاکسنگ کا شکار ہیں کیونکہ نفرت انگیز پیغامات میں ان کا شناختی کارڈ اور فون نمبر تک شیئر کیا جا رہا ہے۔کھوسٹ نے یہ واضح کیا کہ وہ دھمکیاں دینے والوں کا نام نہیں لیں گے۔
ڈائریکٹر کی جانب سے اس کھلے خط کے بعد متعدد معروف شخصیات نے ان کے حق میں آواز اٹھائی۔
اداکارہ ماہرہ خان نے کہا کہ اس سے فن کی طاقت اور اثر و رسوخ ظاہر ہوتا ہے کہ جو فلم لوگوں نے ابھی دیکھی بھی نہیں اس سے خوفزدہ ہیں۔
Time and again we are made to realise our power and our influence. A film ( that people haven’t seen) can make some this scared. Mushkil ko bata ke tera Allah kitna bara hai @KhoosatSarmad https://t.co/AGVeTl8Dfh
— Mahira Khan (@TheMahiraKhan) January 19, 2020
فلم میں کام کرنے والی ایمان سلیمان نے معاملے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ فلم پاکستان کے لیے بنائی گئی تھی۔
میرا سیٹھی نے معاملے کو انتہائی پریشان کن قرار دیا۔
The official censor board has cleared this film.
The unofficial censor board - the one that wields street power - is threatening Sarmad Khoosat and his team. Deeply disturbing and problematic. https://t.co/m6hac9qKOC — Mira Sethi (@sethimirajee) January 19, 2020
اداکارہ صنم سعید نے بھی سوال اٹھایا کہ سنسر بورڈز کی منظوری کے بعد بھی ایسا کیوں ہے؟
All this effort to ban thought provoking stories despite censor boards giving it the go ahead, despite it being edited time and time again to appease sensitive sensibilities of a certain few, why? https://t.co/WvsJySGDFC
— Sanam Saeed (@sanammodysaeed) January 20, 2020
اداکار یاسرہ رضوی نے بھی سرمد کی صلاحیتوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ فلم کی بنیاد یہ ہے اصل میں ہم سب ہیں کون۔
#ZindagiTamasha a pakistani feature film by @KhoosatSarmad is literally under attack for not being your regular flick that is allowed to undermine so much of 'who we are' without any remorse. But this film which looks so much more like us and talks about 'who we really are' is .. pic.twitter.com/IkgeQVSReg
— Yasra Rizvi (@YasraRizvi) January 17, 2020
ہمایوں سعید نے حکومت سے اس مسئلے کو حل کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے لکھا کہ پاکستان میں فلم بنایا ایک بہت مشکل چیلنج ہے اور ایسا کرنے والوں کو سراہنا چاہیے۔
The government must address this at the earliest. Filmmaking in Pakistan is already a tough challenge; those who dare to venture into it need to be encouraged and appreciated https://t.co/H2ZP1Wjd8H
— Humayun Saeed (@iamhumayunsaeed) January 18, 2020
سینیٹر فرحت اللہ بابر نے سرمد کے حق میں ٹویٹ کی۔
Terribly sad, threatening calls are made to withdraw 'Zindagi Tamasha', despite the film cleared multiple times by censor boards. Shows there are dejure and de-facto govts. De-facto is driving the vehicle from the rear seat. Sooner or later such a vehicle fated to meet accident. https://t.co/qZJxCbwHKb
— Farhatullah Babar (@FarhatullahB) January 19, 2020
اس سے قبل اکتوبر 2019 میں فلم کا ٹریلر یوٹیوب سے ہٹانے کے بعد نیا ٹریلراپ لوڈ کیا گیا تھا۔
ٹریلر کو ہٹانے سے متعلق پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ڈائریکٹر سرمد کھوسٹ کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ کچھ لوگوں کی جانب سے ٹریلر میں شامل بعض مناظرکے حوالے سے خدشات کے بعد کیا گیا۔
سرمد فلم ’’ زندگی تماشا ‘‘کی ریلیز سے متعلق درپیش رکاوٹوں کے حوالے سے وزیر اعظم عمران خان کو بھی کھلا خط لکھ چکے ہیں
انسٹا اور ٹوئٹر پر جاری کیے جانے والے اس خط میں سرمد نے اصدر پاکستان، وزیراعظم ، آرمی چیف ، چیف جسٹس آف پاکستان اور وزیراطلاعات کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا تھا کہ فلم 24 جنوری کو ریلیز کیلئےمقرر ہے۔ ڈھائی منٹ دورانیہ کا ٹریلر دیکھ کر مفروضوں کی بنیاد پرمصنف ، پروڈیوسر اور میرے خلاف شکایت درج کی گئی جبکہ فلم تینوں سنسر بورڈز سے پاس ہوچکی ہے۔
سرمد نے وزیراعظم کو مخاطب کرتے ہوئے مزید کہا کہ یآپ کے علم میں یہ بات اس لئے لا رہا ہوں کہ نہ صرف میری ٹیم اور مجھ پر دباؤ ڈالا جارہا ہے بلکہ تواتر سے ہونے والے واقعات کی وجہ سے سسنر بورڈ کی ساخت کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے ۔
سرمد کھوسٹ کی ہدايتکاری ميں بننے والی اس فلم کے مرکزی کرداروں میںعارف حسین، سمیعہ ممتاز، علی قریشی اور ایمان سلیمان شامل ہیں
اندرون لاہور کی زندگی کے تلخ حقائق ،نشيب و فراز اور گلی محلوں میں بسنے والے عام کرداروں کے گرد گھومتی فلم ”زندگی تماشا‘‘ ریلیز سے قبل ہی بوسان فلم فیسٹیول میں’’ کم جیسوئک‘‘ ایوارڈ بھی حاصل کرچکی ہے۔