اب کے ہم بچھڑے ۔۔۔۔۔۔۔

میرے ایک لڑکپن کے دوست اکثر اپنے اردگرد کے ماحول سے نالاں رہتے تھے۔ عورت ذات سے خدا واسطے کا بیر تھا۔ لفظ مس ان کی چڑ تھی لہٰذا وہ خود کو معاشرے میں مس فٹ کے بجائے مسٹر ان فٹ قرار دیتے تھے۔ مجھے ان کی ذہنی رو صبح و شام بھٹکی معلوم ہوتی تھی۔ بہکی بہکی باتیں کرتے تھے۔ رات کے کسی پہر جب ان کے فون کی گھنٹی مجھے سوتے سے جگاتی تو وہ مجھے کچھ ہوش میں معلوم ہوتے۔عجب الٹا نظام تھا۔ وہ اپنی گفتگو کا آغاز اس مصرعے سے کرتے۔
اب کے ہم بچھڑے توشاید کبھی مزاروں پہ ملیں
ان کے مزاروں پر ملنے والی بات مجھے کبھی سمجھ نہیں آئی اور میں اس بات پر یقین بھی نہیں کرنا چاہتا تھا کیوںکہ وہ اپنے حساب کتاب سے کسی مزار پر حاضری کو عقیدے کی کمزوری سمجھتے اور اسے بزرگ شخصیت کے آرام میں خلل پر تعبیر کرتے تھے۔ یہاں تک کہ قوال حضرات کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ یہ لوگ سوائے پان فروشوں کے کسی کو فائدہ نہیں پہنچا سکتے۔

میں کچھ مولوی حضرات کے خوف اور کچھ تعظیم کی وجہ سے ان کے کسی نکتے پر بحث کرنے سے اجتناب برتتا تھا۔ اس لئے کہ مجھے موت سے نہیں فتوے سے ڈر لگتا ہے۔ میرے دوست نے حسب سابق مجھے رات کے ساڑھے تین بجے کے قریب گھر کے نمبر پر کال کی۔ ان کی ناراضگی مجھے گوارہ نہ تھی۔ اس لئے میں اپنے ٹیلیفون کو اپنے بائیں کان کے قریب رکھتا تھا اور پہلی ہی گھنٹی پر میری نیند حرام ہوجاتی اور وہ صبح صادق تک نہ جانے کیا کچھ کہتا اور میں اپنی غنودگی میں کیا کچھ سمجھتا اور ان کی تائید میں ہوں ہاں کرتا۔ صبح اچھی طرح ہوش آنے پر میں سوچتا کہ خدا نخواستہ عالم غنودگی میں کہیں میں نے ان کی کسی غلط بات پر اتفاق تو نہیں کیا۔ جس پر میرا ضمیر مجھے ملامت کرے۔ پھر خیال آتا کہ جب مجھے ہوش ہی نہیں تھا تو اتفاق اور بے اتفاقی کا مطلب؟؟؟۔
میں نے جھٹ سے فون اٹھایا اور انہیں فون کیا۔ انہوں نے بتایا کہ ارے شرفو میں بتانے والا ہوں کہ اب کہ ہم بھی نوکری کرنے جائیں گے۔ انٹرویو دے آئے ہیں بس ان کے ٹیلیفون کا انتظار ہے۔ تمہارا حوالہ دے آیا ہوں۔ وہ تم کو فون کرکے میرے چال چلن کی بابت پوچھیں گے۔ تم میری تعریف کردینا خوب۔ بس ایک بات ذرا کھٹکھتی ہے۔
وہ کیا جمال صاحب ؟؟؟
یار اس دفتر کے راستے میں دو مزارات پڑتے ہیں مزاری۔
اچھا ؟ تو پھر؟؟؟
پھر کیا، آج کوئی متبادل راستہ دیکھنے کا ارادہ ہے صبح۔ ورنہ ۔
ورنہ کیا ؟
ورنہ مجبوری کا نام شکریہ ۔ نوکری تو کرنی ہی ہے نا ، اب تو ماں باپ بھی طعنے دینے لگے ہیں۔ بلکہ اماں کہتی ہیں کہ پوتے کھلائے بغیر خدا کے پاس نہیں جانا اور میں چاہتا بھی یہی ہوں کہ اماں ہمیشہ میرے پاس رہیں مگر وہ ضد پہ اڑ گئیں ہیں کہ نوکری ہوتے ہی وہ محلے والی دوشیزہ کا رشتہ دیکھنے بھی جائیں گی اور تم جانتے ہو مزاری کہ مجھے لفظ مس سے ہی نفرت ہے۔
یار فکر کیوں کرتے ہو وہ شادی کے بعد مسز کہلائیں گی مس نہیں۔ اچھا لیکن مزاری میری اماں جان کوئی اسکول کی مس پسند کرآئی ہیں، جو ساری عمر محلے کے بچوں کی مس ہی رہیں گی اور تم جانتے ہو کہ مجھے بس ایک بار ہی عشق ہوا تھا اور میں ناکام ہو کر بھی دنیا کی نظر میں زندہ ہوں اور کون کہتا ہے کہ دل مردہ ہو توآدمی زندہ رہتا ہے۔
تو وہ کہاں ہیں آج کل ؟؟؟ شادی کر لی ہو گی ہے نا ۔۔۔۔؟ نہیں وہ خاندان کی باغی نکلی۔ کہیں اور شادی سے انکار پر خاندان کے ذہنی و جسمانی تشدد سے دماغی توازن کھو بیٹھی۔ مجھے بھی پہچان نہیں سکی تھی۔ آخری بار جب میں ان کے سامنے گیا تھا۔ آخری بار؟ کیا مطلب؟؟؟ تمہارا جب اسے زنجیروں سے باندھ کرلے جارہے تھے تو میں بالکل بے بس تھا ۔ ان کے گھر والوں کا خیال تھا کہ اس پر کسی آسیب نے قبضہ کر رکھا ہے ۔ عشق آسیب نہیں تو کیا ہے؟ وہ عدت میں ہے آج کل۔
یار تمہاری بات میری سمجھ میں نہیں آرہی ۔ شادی نہ کی اور عدت میں ہے ۔ دماغی توازن کھو بیٹھی ہے وغیرہ وغیرہ۔ تم نے نہیں سنا کہ عشق جس کو طلاق دے دے ،عمر اس کی تمام عدت۔ پہلی بار مجھے اس کا لہجہ بھیگا بھیگا سا لگا اور پہلی بار مجھے وقت کے گزرنے کا احساس تک نہیں ہوا۔ کہاں ہے آج کل وہ۔ یار مزاری وہ جہاں ہے میں وہاں سے گزر نہیں سکتا ۔ کیوں کہ میں اس کی دلخراش چیخیں سن نہیں سکتا۔ وہ کئی بار میرا نام لیتی ہے اور وہ جاہل اسے مارتے ہیں۔
کون جاہل ؟؟
جس مزار پر وہ رسیوں سے بندھی ہے۔ جہاں ان کے آسیب کو بھگایا جارہا ہے وہاں ۔ اور میں کچھ کر نہیں سکتا کہ کاری ہونے سے وہ بچ گئی ہے مگر جیتے جی قبر میں اتر گئی ہے۔ میں نے بہت کوشش کی مگر روایت پسند اور غیرت مند خاندان نے مجھے تنبہہ کی کہ وہ میرا حشربگاڑ دینگے اور میری بہن جو کہ ایک اسکول کی طالبہ ہے اس کو نقصان پہنچانے کی کوشش کریں گے۔ میں سچ مچ ڈر گیا۔ حالانکہ تم جانتے ہو کہ میں ڈرپوک نہیں۔
کیا میں اس کا یہی مطلب لوں کہ تم بہت سی چیزوں کو نظراندازصرف اس لئے کرتے ہو؟ کہ تمہاری ناخوشگوار یادیں وابستہ ہیں۔ نہیں یہ بات نہیں مزاری ۔ میں تو تمہیں یہ بتانے کی کوشش کر رہا تھا ۔ اماں جس محلے کی مس کو میرے پلے باندھنے کا ارادہ رکھتی ہیں اس کے ابا حضور کسی درگاہ کے مجاور ہیں۔ اب جمال کی آواز میں ایک خوش گوار تبدیلی آچکی تھی ۔ ادھر موذن نے فجر کی اذان دی ۔ اور دوسری طرف جمال نے بے اختیارکہا اللہ اکبر ۔ اور بغیر کچھ کہے فون منقطع کردیا۔

جمال گزشتہ دس سال سے برسرروزگار ہے۔ گزرتے وقت کے ساتھ اس کے سارے اصول پانی پر لکھی تحریر ثابت ہوئے۔ اپنی بوڑھی والدہ دو بچوں اور بیوی کے ساتھ اکثر درگاہ پر نظرآتا۔ جب اس کے بچے ثواب کی خاطر اپنے باپ کے ہاتھ سے مٹھائی کا ڈبہ ایک گلاب کا پھول اور کچھ روپے لے دوڑتے ہوئے زنجیر سے بندھی ایک پگلی کو دیتے تو متشکر اور التجا بھری نگاہوں سے جمال کو دیکھتی ہوئی بچوں کے سر پر ہاتھ پھیرتی ۔ میں بھی کئی بار گیا۔ میں نے اس پگلی کی آنکھوں میں نیلگوں سمندر اترتے دیکھا ۔ ایک کمزوروجود ۔جس پر شاید کئی بیماریوں کا حملہ تھا۔ جسے دعا کے ساتھ ساتھ دوا کی بھی اشد ضرورت تھی۔
سنا ہے جو شخص اس کے قریب جائے وہ اسے گردن سے دبوچ کر مارنے کی کوشش کرتی ہے ۔ میں سوچتا ہوں اس کا آسیب کس قدر پرانا ہو چکا ہے۔ اگر سانسوں کی آمد و رفت کا نام زندگی ہے تو وہ پگلی زندہ ہے اور اپنے خاندان کے درمیان زندگی سے بھرپور قہقہے لگانے والا شخص کب کا مرچکا ہے۔ ہمارے معاشرے میں شاید آپ کو جا بہ جا یہ مناظردیکھنے کو ملیں۔ اب تواتر کے ساتھ مجھے جمال کی کال نہیں آتی۔ اس کو پتا ہے کہ میں اب اس کا مصرعہ دہراتا ہوں اور وہ خفگی سے مجھے اپنے بزدل نہ ہونے کی دس دلیلں پیش کرتا ہے ۔