شمالی علاقہ جات کے باشندے برفباری میں کیا کرتے ہیں

زندگی کا دوسرا راخ
وادی کالام میں مقامی باشندے اپنے گھر کی چھت سے برف ہٹا رہے ہیں۔ فوٹو: نورالہدیٰ شاہین

پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں موسم سرما کی پہلی برفباری ہوچکی ہے۔ مقامی باشندوں کے معمولات زندگی بڑی حد تک محدود اور زندگی میں ٹھہراؤ آگیا ہے۔ برف باری سے لطف اندوز ہونے والے ملک بھر کے سیاح بھی برف پوش وادیوں کا رخ کرچکے ہیں اور بعض لوگ تاحال منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جن علاقوں میں آپ زندگی کے خوبصورت ترین لمحے گزار کر آتے ہیں، کبھی آپ نے یہاں بسنے والوں کے طرز زندگی پر غور کیا ہے۔

اگر نہیں تو آج ہم آپ کو شمالی علاقہ جات کے دوسرے رخ سے روشناس کراتے ہیں۔ یہ رخ بھیانک بھی ہے اور خوشگوار بھی۔ کسی کیلئے یہ رخ ایڈوینچر ہے اور کسی کیلئے انتہائی تکلیف دہ۔ کسی کیلئے یہ تفریح اور سیاحت ہے تو کسی کیلئے یہ بھی معمول کی زندگی کا ایک اکتا دینے والا پہلو ہوسکتا ہے۔

 

آخر آپ نے کبھی غور کیا کہ منفی 17 ڈگری سینٹی گریڈ کی خون جما دینے والی سردی اور 10 فٹ تک زمین پر جمی برف میں رہنے والے مقامی باشندے کیسے زندگی بسر کرتے ہیں۔ کیا وہ اس زندگی کو آپ کی طرح انجوائے کرتے ہیں یا پھر ’سمجھوتے‘ کے تحت گزر اوقات پر یقین رکھتے  ہیں۔

شمالی علاقہ جات کا یہ دوسرا رخ نومبر میں شروع ہوتا ہے جب موسم خزاں اپنی تمام تر زردیوں کے ہمراہ وارد ہوجاتا ہے۔ کھیتوں سے لہلہاتی فصلیں اٹھ جاتی ہیں۔ درختوں سے پھل اترجاتے اور زرد پتے جھڑنا شروع ہوجاتے ہیں۔ اپنے بھیڑ بکریوں کے ہمراہ پہاڑوں اور سبزہ زاروں کا رخ کرنے والے چرواہے واپس اپنی بستیوں کا رخ کرتے ہیں اور اس کے بعد برف باری کا انتظار شروع ہوجاتا ہے۔

نظام فطرت میں اس بڑی تبدیلی کے بعد انسانوں کا بنایا ہوا نظام حرکت میں آجاتا ہے اور مقامی لوگ اگلے 6 ماہ کیلئے تیاری شروع کرتے ہیں۔ یہ تیاری صرف گرم کپڑے خریدنے تک محدود نہیں ہوتی بلکہ سوئی اور ماچس سے لیکر راشن تک تمام تر ضروریات زندگی کا احاطہ کرتی ہے۔

سب سے پہلے اگلے 6 ماہ کیلئے لکڑی کا انتظام کیا جاتا ہے کیوں کہ شمالی علاقہ جات میں گیس کی سہولت میسر نہیں۔ گھر کے سارے مرد جنگل میں جاتے ہیں اور کئی دن تک لکڑی جمع کرتے اور اس کو پیٹھ پر لاد کر گھر لاتے ہیں اور گھر کے اندر ہی کسی بڑے اضافی کمرے میں ڈھیر لگا دیتے ہیں۔

اس کے بعد راشن کا مرحلہ آتا ہے۔ آٹا، چائے، چینی اور دالوں سے لیکر روزمرہ استعمال کی دیگر اشیا جیسے ماچس، نمک، گھی، صابن، شیمپو وغیرہ ذخیرہ کیا جاتا ہے تاکہ اگلے 6 ماہ تک اگر سڑکیں مکمل بند اور لوگ گھروں تک بھی محصور رہیں تو کسی چیز کی قلت نہ ہو۔ اس کے ساتھ ہی لوگ اپنے لیے گرم کپڑے، جیکٹ، موزے اور جوتے خرید لیتے ہیں۔

برف پڑتے ہی زندگی تھم سی جاتی ہے۔ بازار ویران اور سڑکیں سنسان ہوجاتے ہیں۔ جنگلوں سے وحشت اور سڑکوں سے تنہائی محسوس ہوتی ہے۔ گویا ہر سو گھمبیر خاموشی چھا جاتی ہے اور ساتھ ہی مقامی باشندوں کے چہرے بھی مرجھا جاتے ہیں۔

اس دوران لوگوں کی سرگرمیاں صرف چھت سے برف ہٹانے، گھر سے مسجد جانے اور رشتہ داروں کے ہاں آنے جانے تک محدود ہوجاتی ہے۔ گھر کے ہر کمرے سے لیکر مسجد تک ہر جگہ آگ جل رہی ہوتی ہے اور ہر شخص تھوڑی دیر کیلئے گھر سے باہر جاتا اور واپس آکر آگ کے پاس بیٹھ جاتا ہے۔

اس موسم کا سب سے دردناک پہلو یہ ہے کہ یہاں سارے روزگار رک جاتے ہیں۔ اگر کسی کے پاس جمع پونجی اتنی ہے کہ 6 ماہ تک چل سکے تو وہ آرام سے بیٹھ کر کھاتا ہے اور جس کے پاس نہیں ہوتی، اس کے پاس دو راستے ہیں۔ پہلا یہ کہ وہ کسی دکاندار سے ادھار راشن خریدے یا پھر اپنی فیملی کے ہمراہ شہروں کا رخ کرے۔ وہاں کرایہ پر گھر لے اور محنت مزدوری کرکے 6 ماہ تک گزر بسر کرسکے۔

زیادہ تر لوگ دوسرا راستہ اختیار کرتے ہیں جس کے باعث گاؤں میں 6 ماہ تک انسانوں کی آبادی بھی کم ہوجاتی ہے۔ مثال کے طور پر وادی کالام میں میرے گاؤں کی کل آبادی 250 گھروں پر مشتمل ہے۔ مگر موسم سرما میں یہاں صرف 50 کے قریب گھر آباد اور 200 گھروں کے مکین روزی روٹی کی تلاش میں شہر چلے جاتے ہیں۔

یہ موسمی نقل مکانی بھی یہاں کے لوگوں کی زندگی کا لازمی جزو ہے مگر اداس کردینے والی اس نقل مکانی کا ایک خوشگوار پہلو بھی نکلتا ہے۔ جب پورے گاؤں میں صرف 50 گھر رہ جاتے ہیں تو وہ ایک دوسرے کے اتنے قریب آجاتے ہیں جیسے ایک باپ کی اولاد ہوں۔ وہ روز رات کو بیٹھکوں میں جمع ہوتے، آگ جلاکر دیر تک پتے اور لڈو کھیلتے رہتے ہیں۔ ایک دوسرے کی دعوتیں کرتے اور یہاں تک کہ چھت سے برف ہٹانے میں بھی ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔

اس 6 ماہ کے دورانیہ میں لوگ کھوئے ہوئے ماضی کو تلاش کرتے اور اپنی بھولی ہوئی اقدار تازہ کرتے ہیں۔ آبادی بڑھنے کے ساتھ ساتھ پیدا ہونے والی دوریاں ختم، قربتوں میں اضافہ اور محبتیں پروان چڑھتی ہیں۔ دادیاں کہانیاں سناتیں اور مائیں روایتی کھانے بناتی ہیں۔ بچے برف کے ساتھ کھیلتے، اس میں ٹنل اور عارضی گھر بناتے ہیں اور برف کے گولے بناکر ایک دوسرے کو مارتے رہتے ہیں۔

برف باری کے دوران بچوں کے کھیل بھی بڑے دلچسپ ہوتے ہیں۔ صاف ستھرا لکڑی کا تختہ ڈھونڈ کر اس کے آگے رسی باندھ لیتے ہیں۔ ایک بچہ اس پر بیٹھ جاتا ہے اور دوسرا بچہ برف کے اوپر اس ’گاڑی‘ کو کھینچتا ہے۔ اسی طرح باری باری تمام بچے اس ’گاڑی‘ کی سواری کا لطف اٹھاتے ہیں۔

بچے پیراشوٹ کپڑے سے بنے اپنے جیکٹ پہن کر کسی اونچی جگہ پر جاتے اور اپنی جیکٹ بچھاکر اس پر بیٹھ جاتے اور اترائی میں سلائیڈ کا مزہ لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی جیکٹ جلدی پھٹ جاتی اور بڑوں سے ڈانٹ بھی پڑتی ہے۔

رولر اسکیٹنگ، آئس اسکیٹنگ اور دیگر ملے جلے کھیل یہاں کے بچے نہیں جانتے اور نہ ہی ان کھیلوں کے لوازمات سے آگاہ ہوتے ہیں۔ وہ پلاسٹک کے جوتے پہن کر دوڑ لگاتے اور پھر دور تک کھڑے کھڑے پھسلتے جاتے ہیں۔ جو گرے بغیر جتنا دور پھسلے گا وہی کھیل جیت جاتا ہے۔

برف باری کے دوران جو علاقے مرکزی شاہراہوں پر آباد ہیں، ان کی آمدورفت تو ہوتی رہتی ہے۔ گاڑیاں چلتی رہتی ہیں مگر جو مرکزی شاہراہوں سے دور گاؤں میں آباد ہیں وہاں آمدورفت محدود ہوجاتی ہے۔ ڈاکٹر کے پاس جانا ہے یاکسی دوسرے گاؤں میں کسی دوست یا رشتہ دار سے ملنے، ان کو پیدل ہی جانا پڑتا ہے۔ بعض اوقات مریضوں کو پیٹھ پر اٹھاکر ڈاکٹر تک پہنچایا جاتا ہے۔ بعض صورتوں میں مریض کو چارپائی پر لٹاکر لوگ اس کو کاندھا دے کر منزل مقصود تک پہنچاتے ہیں۔ بلاشبہ یہ ایک مشکل اور جفاکش زندگی ہے مگر جب مریض آپ کا ہو اور پورے گاؤں کے لوگ جمع ہوکر چارپائی کو کندھا دینا اپنا فرض سمجھیں تو انسان ایک لمحے کیلئے مشکلیں بھول کر ’انسانی معاشرے‘ کا احسان مند ہوجاتا ہے۔

اگر آپ کراچی، لاہور، اسلام آباد، فیصل آباد سمیت دیگر بڑے شہروں میں رہ کر یہ محسوس کر رہے ہیں کہ ’انسانی اقدار‘ کمزور ہوتی جارہی ہیں تو آپ کو دعوت دیتا ہوں کہ اپنی زندگی کے کچھ لمحے ان وادیوں میں جاکر گزاریں اور اپنی کھوئی ہوئی اقدار ساتھ لے آئیں۔

LIFE STYLE

تبولا

Tabool ads will show in this div

تبولا

Tabool ads will show in this div