توہین عدالت کیس: غلام سرور کو نوٹس، فردوس دوبارہ طلب

فردوس عاشق اعوان کی درخواست بھی ساتھ سننے کا فیصلہ
فوٹو: آن لائن
فوٹو: آن لائن
فوٹو: آن لائن

اسلام آباد ہائی کورٹ نے توہین عدالت کیس میں وفاقی وزیر غلام سرور خان کو نوٹس جاری کرتے ہوئے 14 نومبر تک جواب طلب کرلیا۔

پیر 11 نومبر کو وفاقی وزیرغلام سرور خان کےخلاف توہین عدالت کی درخواست پر سماعت ہوئی جس میں ہائی کورٹ نے معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان کی درخواست بھی غلام سرور کےساتھ سننے کا فیصلہ کیا۔

درخواست ساتھ سننے کے فیصلے پر فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ میری درخواست کا غلام سرور سے کیا تعلق وہ ان کا انفرادی کام ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ آپ ایک ہی کابینہ سے ہیں ایسا مت کہیں! حکومت کا کام عوام کا اداروں پر اعتماد مزید مضبوط کرنا ہے اور حکومت خود لوگوں کا اعتبار ختم کیسے کر سکتی ہے؟ حکومت نے نوازشریف کےلیے خود میڈیکل بورڈ بنایا تھا تو کیا ہم یہ سمجھیں کہ حکومت من گھڑت رپورٹس تیار کر کےعدالت کو گمراہ کرتی رہی؟ اگر ایسا ہوا ہے تو نتائج سنگین نکلیں گے۔

فردوس عاشق اعوان نے جواب میں کہا کہ میں غلام سرور کی جگہ پر کوئی بیان دینے کی مجاز نہیں۔ مجھے وقت دیا جائےغلام سرور کا بیان منگوا کر ہم دیکھیں گے۔

درخواست گزار کے وکیل جہانگیر جدون عدالت میں پیش ہوئے اور موقف اپنایا کہ وفاقی وزیر نے ٹی وی پر کہا ڈیل ہو رہی ہے، جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ غلام سرور کے بیان کا اس عدالت سے کیا تعلق ہے؟ غلام سرور نے عدالت میں زیرِ التوا سے متعلق کیا کچھ کہا ہے؟ اگر انہوں نے صرف ڈیل کا کہا ہے تو حکومت جواب دے۔مجھے یہ بتائیں کیا عدالتی کارروائی پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی؟

عدالت نے فردوس عاشق اعوان کو غلام سرور کیس میں بھی روسٹرم پر بلایا۔ جسٹس اطہرمن اللہ نے استفسار کیا کہ کیا کابینہ نے یہ کہا ہے کہ میڈیکل بورڈ نے نوازشریف کےلیے جعلی رپورٹ تیار کی؟ اگر بےبنیاد رپورٹس تیار کرکےعدالتوں سے ریلیف لیا جائے تو یہ بہت سنجیدہ معاملہ ہوجائے گا۔

فردوس عاشق نے جواب میں کہا کہ اگر کسی وزیر نے ایسی کوئی بات کی ہے تو اُس کی ذاتی رائے ہے۔ حکومت کا نہ یہ موقف ہے اور نہ ہی ایسا کہا ہے۔

جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیے کہ اگر کابینہ کے وزرا ایسے بیانات دیں گے تو اس کے خطرناک نتائج نکلیں گے۔ اگر حکومت خود سسٹم کی نفی کرے گی تو سسٹم کیسے چلے گا۔ اگر کسی وزیر نے ایسا بیان دیا اور حکومت نے کارروائی نہ کی تو یہ حکومتی موقف سمجھا جائے گا۔

فردوس عاشق اعوان نے عدالت اور ججز سے متعلق ریمارکس غیر مشروط طور پر واپس لیتے ہوئے ہائی کورٹ سے توہین عدالت کا شوکاز نوٹس واپس لینے کی استدعا بھی کی۔

معاون خصوصی کی جانب سے تحریری جواب جمع کرایا گیا تھا۔

CONTEMPT OF COURT

FIRDOUS ASHIQ AWAN

Ghulam Sarwar

Tabool ads will show in this div