نیلاب کی چٹانوں پر ہزاروں برس قدیم نقش و نگار

قدیم تہذیبوں میں اسے نیلاب یعنی نیلا پانی بھی کہا گیا ہے

دریائے سندھ پاکستان کا قومی دریا ہے اور قدیم تہذیبوں میں اسے نیلاب یعنی نیلا پانی بھی کہا گیا ہے۔ یہی دریائے سندھ اپنے دامن میں لاکھوں برس کی تاریخ رکھتا ہے۔

اٹک کے قريب نيلاب باغ تاريخی خزانوں سے بھرا ہے جہاں کئی چٹانوں پر مختلف مناظر تراشے گئے ہیں۔ محققین کا کہنا ہے کہ پتھروں پر تراشی کہانیاں ہزاروں برس پرانی ہیں۔

دریائے سندھ تبت سے نکل کر بھارتی ریاست ہماچل پردیش کو چھوتے ہوئے جموں و کشمیر سے گزرتے دریائے سندھ اٹک کے نیلاب باغ کے چٹانوں تک پہنچتا ہے۔لاکھوں برس کی تاریخ کے امین سندھو دریا کے کچھ راز ان چٹانوں کے قریب بھی بکھرے ہیں جن کا سرا روئے زمین پر انسانی زندگی کے ابتدائی دنوں سے جا ملتا ہے۔

​کالے گرینائٹ کے سخت پتھر دراصل پردیسی سنگ ہیں جو ان علاقوں میں سیکڑوں میل دور دور تک کہیں نہیں پائے جاتے ۔۔

ان پتھروں پر شکار کے قدیم آلات کے عکس، کھڑے ہو کر نشانہ لینے اور بیٹھ کر گھات لگانے کی عکاسی، بیل، بھینس اور بکری کے نقش و نگار تراشے گئے ہیں۔

محقیقین کے مطابق پتھر کے دور کی یہ کہانیاں ہزاروں برس پہلے دریائے سندھ کی لہروں کے ساتھ ہزاروں میل تک بہتی اور بکھرتی چلی گئیں۔​

آرکیالوجسٹ راجہ نور نظامی کا کہنا ہے کہ کچھ کتابوں میں ان پتھروں کے متعلق یہ ملتا ہے کہ ماضی میں آنے والے برفانی سیلابوں کے باعث یہ چٹانیں چلاس سے بہہ کر یہاں آئی ہیں۔

مؤرخین کہتے ہیں کہ صدیوں کی دھوپ چھاؤں نے پتھروں میں تو دراڑیں ڈال دیں لیکن ان پر نقش داستانیں نہ مٹ سکیں۔

محقق عمران کھٹڑ کا کہنا ہے کہ بار بار پانی میں جانے کی وجہ سے یہ چٹانیں اب ٹوٹ رہی ہیں۔ ان کے بیچ میں دڑاڑیں واضح ہو رہی ہیں جبکہ یہ تحریریں بہت پکی ہیں۔

ہمالیہ، قراقرم اور ہندوکش کے برفانی پانیوں کے زور سے دریا جب بپھرتا ہے تو ان رازوں کو پھر سے اپنی لہروں میں چھپا لیتا ہے.

River Sindh

Tabool ads will show in this div