سابق پولیس اہلکار پاکستان میں داعش کا سربراہ مقرر

داعش بلوچستان میں قدم جمانے کیلئے پر تولنے لگی

اسلامک اسٹیٹ (داعش) نے کراچی سے تعلق رکھنے والے سابق پولیس اہلکار داؤد محسود کو حال ہی میں قائم کی گئی ولایہ پاکستان کا سربراہ مقرر کردیا۔

انسداد دہشت گردی ڈیپارٹمنٹ کے 2 افسران نے سماء ڈیجیٹل سے گفتگو کرتے ہوئے اس بات کی تصدیق کردی۔ ایک افسر نے میڈیا سے بات چیت کی اجازت نہ ہونے کے باعث نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ داؤد محسود کراچی کے قائد آباد پولیس اسٹیشن میں منشی کے عہدے پر تعینات تھا، اس سے قبل وہ افغانستان میں مقیم تھا، مئی 2019ء میں داعش کی جانب سے ولایہ پاکستان کے قیام کے بعد اس کے بلوچستان آنے کی اطلاعات ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ حکام کے مطابق داعش کے پاکستانی گروپ اور آئی ایس آئی ایس کی عراق اور شام کی قیادت کا براہ راست کوئی تعلق نہیں، فیصلے عراق اور شام میں کئے جاتے ہیں اور خراسان (افغانستان) کے ذریعے پاکستان تک پہنچتے ہیں۔

داؤد محسود پہلے سے مجرمانہ ریکارڈ رکھتا ہے، اس نے حکیم اللہ محسود کی قیادت میں تحریک طالبان پاکستان سے آغاز کیا اور ملا فضل اللہ کے دور میں ٹی ٹی پی کراچی کا سربراہ بنا۔ سیکیورٹی فورسز کی جانب سے شدت پسند گروپوں کیخلاف آپریشن کے آغاز کے بعد وہ پاکستان سے فرار ہوگیا تھا۔

سال 2017ء میں داؤد نے تحریک طالبان پاکستان سے علیحدگی اختیار کرکے داعش خراسان گروپ میں شمولیت اختیار کرلی تھی۔

پشاور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ کار عقیل یوسفزئی جو خیبرپختونخوا میں دہشت گردی پر گہری نظر رکھتے ہیں، کا کہنا ہے کہ داؤد محسود انتہائی متحرک اور سخت گیر شخص ہے، ساتھ ہی وہ ٹی ٹی پی میں کافی اثر و رسوخ کا مالک بھی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ تحریک طالبان کی قیادت افغانستان میں مقیم ہے، اس لئے گروپ اور نچلے طبقے کے ارکان کے درمیان رابطے کا فقدان ہے، جس کے باعث داؤد کے سابق گروپ کے سخت گیر کمانڈرز داعش میں شمولیت کا فیصلہ کرسکتے ہیں۔

بلوچستان کو ہدف بنایا جارہا ہے

انسداد دہشت گردی ڈیپارٹمنٹ بلوچستان کے سینئر افسر ڈی آئی جی اعتزاز گورایہ نے واضح کیا ہے کہ یہاں داعش کے پرچم تلے کوئی غیر ملکی جنگجوکام نہیں کررہا، البتہ مقامی دہشت گرد گروپ لشکر جھنگوی اور جیش الاسلام نے داعش سے الحاق کرلیا ہے، یہی وجہ ہے بلوچستان میں داعش ابھر کر سامنے آرہی ہے۔

لشکر جھنگوی جو کہ کالعدم سپاہ صحابہ پاکستان کا ہی ایک اور چہرہ ہے، پاکستان میں شیعہ فرقے سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں بالخصوص بلوچستان میں ہزارہ برادری کو نشانہ بنارہا ہے۔ ہیومن رائٹس کمیشن کی 2018ء میں جاری رپورٹ کے مطابق 2012ء سے 2017ء تک ہزارہ برادری پر حملوں میں تقریباً 509 افراد کو قتل کیا گیا۔

پچھلے چند سالوں میں بلوچستان میں ہونیوالے متعدد حملوں کی ذمہ داری داعش نے قبول کی، جس میں مستونگ میں الیکشن مہم کے دوران ہونیوالا خودکش دھماکا بھی شامل ہے جس میں 128 افراد لقمہ اجل بن گئے تھے۔

اپریل میں کوئٹہ کے علاقے ہزار گنجی میں ہونیوالے بم دھماکے میں ہزارہ برادری  سے تعلق رکھنے والے 8 افراد سمیت 20 جاں بحق ہوئے، آئی ایس آئی ایس (داعش) نے اعماق نیوز ایجنسی کے ذریعے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔

پولیس حکام کے مطابق حالیہ چند ماہ کے دوران سیکیورٹی فورسز کی کوئٹہ اور گرد و نواح میں کارروائیوں کے دوران داعش کے 12 سے زائدشدت پسند مارے جاچکے ہیں۔

رواں ماہ (ستمبر) کی 4 تاریخ کو خاتون خودکش بمبار سمیت تقریباً 6 شدت پسند کوئٹہ کے مشرقی بائی پاس کے قریب آپریشن میں ہلاک ہوئے، جو ہزار گنجی سمیت کئی حملوں میں ملوث تھے۔ کارروائی کے دوران مکان سے داعش کے جھنڈے، اسلحہ اور دیگر سامان بھی برآمد ہوا تھا۔ اس کے اگلے ہی دن داعش نے اعماق نیوز ایجنسی کے ذریعے اپنے جنگجوؤں کی پاکستانی سیکیورٹی فورسز کے ساتھ کوئٹہ میں جھڑپ کی تصدیق کی تھی، اس واقعے میں ایک پولیس افسر بھی جاں بحق ہوا تھا۔

کوئٹہ کے نواحی علاقے میں مئی میں کئے گئے آپریشن میں داعش کے 9 شدت پسند مارے گئے تھے۔  ڈی آئی جی گورایہ کے مطابق  داعش کے ہاتھوں متاثر ہونے والے سب سے زیادہ علاقوں میں مستونگ، کوئٹہ، قلات، خضدار اور لسبیلہ شامل ہیں۔ یہ علاقے راہداری، قیام اور بورڈنگ پوائنٹ کے طور پر استعمال کئے جاتے ہیں۔

سی ٹی ڈی حکام کا کہنا ہے کہ ماضی میں ڈیرہ مراد جمالی اور بولان میں بھی کچھ لوگوں کی موجودگی کی اطلاعات ملی تھیں۔

عراق اور شام میں داعش نے خلافت کے زیر قبضہ کئی علاقوں کا کنٹرول کھو دیا تاہم اعزاز گورایہ کے مطابق داعش بلوچستان میں بدستور انتہائی مؤثر اور خطرناک ہے کیونکہ لشکر جھنگوی بدستور اس گروپ کا حامی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ گروپ کا اثر و رسوخ ولایہ پاکستان کے قیام کے بعد مزید بڑھ سکتا ہے۔

بلوچستان میں مقیم ایک تجزیہ کار کا کہنا ہے کہ یہ گروہ صوبے کے لوگوں کیلئے مستقل خطرہ ہے، انہوں نے تصدیق کی کہ مقامی شیعہ مخالف گروہوں بشمول جیش العدل، جنداللہ اور جیش اسلام کی وفاداریاں اب داعش کے ساتھ ہیں۔

مقاصد

رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹیٹیوٹ کے انٹرنیشنل سیکیورٹی اسٹڈیز کے ڈائریکٹر رافائلو پنٹوشی کا کہنا ہے کہ عراق اور شام میں خلافت کے خاتمے کے بعد داعش کا ایک اہم مقصد خود کو پھیلتا ہوا دکھانا ہے نہ کہ سکڑتا ہوا، مختلف علاقوں میں ولایتوں کا قیام داعش کی طرف سے اپنے پھیلاؤ اور کامیابی کو ظاہر کرتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ مزید ولایتوں کے قیام کا مقصد علاقائی شدت پسندوں کو اپنی طرف راغب کرنا ہے، متعدد بار داعش کی طرف سے اپنے سرکردہ رہنماؤں کو مختلف ولایتوں کی طرف بھیجنے پر غور کیا گیا ہے تاہم ان کے نزدیک یہ ایک خطرناک عمل ہوگا، تاہم موجودہ لیڈر شپ کے ہوتے ہوئے عراق اور شام ہی داعش کی توجہ کا مرکز رہیں گے۔

شدت پسندی پر تحقیق کرنیوالے کوئنز یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر امرناتھ اماراسنگم کا ماننا ہے کہ چھوٹی ولایتوں کا قیام اِس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ داعش پاکستان اور بھارت میں بھی اپنی کارروائیاں کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

ان کے خیال میں جب تک عراق اور شام میں حالات داعش کیلئے سازگار نہیں ہوجاتے پاکستان اور افغانستان اُس کی توجہ کا مرکز رہیں گے۔

ترجمہ : فرحان عادل

DAESH

Tabool ads will show in this div