چار میں سے 3 آؤٹ
*** تحریر ؛ نوید نسیم ***
آخر کار تحریک انصاف کے مطلوبہ 4 حلقوں میں سے 3 کے فیصلے الیکشن ٹریبونلز نے عمران خان کے حق میں دے دیئے ہیں، جس کے بعد نواز لیگ کی 3 وکٹیں عمران خان کے ہاتھوں کلین بولڈ ہوگئیں۔
قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 154 سے کامیاب ہونے والے صدیق خان بلوچ کیخلاف جہانگیر ترین کی عذر داری درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے الیکشن ٹریبونل نے انتخابات کو کالعدم قرار دیا ہے، صدیق خان بلوچ پر الیکشن ٹریبونل نے الیکشن لڑنے پر تاحیات پابندی بھی عائد کردی۔
لودھراں کے حلقے سے 2013ء کے عام انتخابات میں آزاد امیدوار صدیق خان بلوچ 86177 ووٹ لیکر کامیاب ہوئے تھے جبکہ تحریک انصاف کے جہانگیر خان ترین 75955 ووٹ لیکر دوسرے نمبر پر اور نواز لیگ کے رفیع الدین بخاری تیسرے نمبر پر تھے، فتح کے بعد صدیق خان بلوچ نواز لیگ میں شامل ہوگئے تھے۔
الیکشن ٹریبونل کے 3 حلقوں سے متعلق فیصلے آنے کے بعد سیالکوٹ کا حلقہ این اے 110 باقی رہ گیا ہے، جس کا فیصلہ آنا باقی ہے، جہاں سے وزیر دفاع خواجہ آصف منتخب ہوئے تھے۔
میڈیا میں آنے والی اطلاعات کے مطابق الیکشن ٹریبونل نے صدیق خان بلوچ کو الیکشن کمیشن میں جعلی ڈگری، غلط اثاثوں کی تفصیلات جمع کروانے اور نادرا کی رپورٹ کی بنیاد پر نااہل قرار دیا جبکہ لاہور کے 2 حلقوں سے متعلق الیکشن ٹریبونلز نے بڑے پیمانے پر بے ضابطگیاں سامنے آنے پر انتخابات کو کالعدم قرار دیا تھا۔
تینوں اہم وکٹیں گرنے کے بعد نواز لیگ نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ سپریم کورٹ میں اپیل کیلئے نہیں جائے گی اور ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف کا مقابلہ کرے گی، جس کے بعد سیاسی صورتحال گرم ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔
مگر سوال یہ بھی ہے کہ کیا تحریک انصاف موجودہ الیکشن کمیشن کے تحت ہونے والے ضمنی انتخابات میں حصّہ لے گی؟، کیونکہ عمران خان یہ کہہ چکے ہیں کہ تمام تر قانونی راستے آزمانے کے بعد بھی اگر الیکشن کمیشن کے چاروں ممبرز مستعفی نا ہوئے تو وہ الیکشن کمیشن کے سامنے دھرنا دینگے۔
یہاں یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ عمران خان چاروں ممبرانِ الیکشن کمیشن کو مستعفی کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں جسمیں خیبر پختونخوا کے ممبر بھی شامل ہیں، اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ عمران خان کا یہ ماننا ہے کہ کے پی میں ہونے والے انتخابات میں بھی دھاندلی ہوئی تھی۔
الیکشن ٹریبونلز کے تینوں فیصلوں میں یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ ان میں جیتنے والے اور دوسرے نمبر پر آنے والے امیدواروں کے درمیان ووٹوں کا فرق نادرا کی رپورٹس میں سامنے آنے والے جعلی یا غیر تصدیق شدہ ووٹوں سے کم تھا، جس کی بنیاد پر الیکشن ٹریبونلز نے قومی اسمبلی کے ان حلقوں میں انتخابات کو کالعدم قرار دیا۔
مثال کے طور پر صدیق خان بلوچ اور جہانگیر خان ترین کے درمیان تقریباً 10 ہزار ووٹوں کا فرق تھا اور الیکشن ٹریبونل کے سامنے پیش کی جانے والی نادرا رپورٹ کے مطابق 12 ہزار سے زائد ووٹ جعلی تھے۔
لاہور کے حلقہ این اے 122 میں جیتنے والے ایاز صادق اور عمران خان کے درمیان فرق تقریباً 8 ہزار ووٹوں کا تھا جبکہ نادرا رپورٹ کے مطابق جعلی، غیر تصدیق شدہ یا جعلی شناختی کارڈز پر پڑنے والے ووٹوں کی تعداد تقریباً 12 ہزار تھی۔
تحریک انصاف کے مطلوبہ چوتھے حلقے این اے 110 میں نواز لیگ کے خواجہ آصف اور تحریک انصاف کے امیدوار محمد عثمان ڈار کے درمیان فرق تقریباً 21 ہزار ووٹ ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ اس حلقے سے متعلق الیکشن ٹریبونل کا فیصلہ کب آتا اور کس کے حق میں آتا ہے، اگر تو تحریک انصاف نے نواز لیگ کی چوتھی وکٹ بھی گرا دی تو پی ٹی آئی کے بنیادی مطالبے کو مزید تقویت ملے گی اور جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ پر سوالات اٹھیں گے۔